ٹرمپ کی نئی سفری پابندی جلد پاکستان اور افغانستان کو متاثر کرسکتی ہے، رپورٹ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی سفری پابندی ممالک کی سیکیورٹی اور جانچ کے خطرات کے بارے میں حکومتی جائزے کی بنیاد پر اگلے ہفتے افغانستان اور پاکستان کے لوگوں کو امریکا میں داخلے سے روک سکتی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق معاملے سے واقف 3 ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دیگر ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کون سے ممالک ہیں۔
یہ اقدام ریپبلکن صدر کی جانب سے پہلی مدت کے دوران 7 مسلم اکثریتی ممالک کے مسافروں پر پابندی کے بعد سامنے آیا ہے، یہ پالیسی 2018 میں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے برقرار رکھنے سے قبل کئی بار دہرائی گئی تھی۔
سابق صدر جو بائیڈن نے 2021 میں اس پابندی کو ختم کرتے ہوئے اسے قومی ضمیر پر داغ قرار دیا تھا۔
اس نئی پابندی سے ان ہزاروں افغانوں پر اثر پڑ سکتا ہے جنہیں پناہ گزینوں کے طور پر یا خصوصی امیگرینٹ ویزا پر امریکا میں آباد کاری کے لیے کلیئر کر دیا گیا ہے کیونکہ انہیں اپنے آبائی ملک میں 20 سالہ جنگ کے دوران امریکا کے لیے کام کرنے پر طالبان کی انتقامی کارروائی کا خطرہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس میں قومی سلامتی کے خطرات کا پتا لگانے کے لیے امریکا میں داخلے کے خواہش مند کسی بھی غیر ملکی کی سیکیورٹی جانچ پڑتال کو تیز کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اس حکم نامے میں کابینہ کے متعدد ارکان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ 12 مارچ تک ان ممالک کی فہرست پیش کریں جہاں سے سفر جزوی یا مکمل طور پر معطل کیا جانا چاہیے کیونکہ ان کی جانچ پڑتال اور اسکریننگ کی معلومات بہت کم ہیں۔
3 ذرائع اور ایک دوسرے ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان کو مکمل سفری پابندی کے لیے تجویز کردہ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے گا، تین ذرائع نے کہا کہ پاکستان کی بھی شمولیت کی سفارش کی جائے گی۔
محکمہ خارجہ، انصاف اور ہوم لینڈ سیکیورٹی اور ڈائریکٹر برائے قومی انٹیلی جنس کے دفتر، جن کے رہنما اس اقدام کی نگرانی کر رہے ہیں، نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
ایک ذرائع نے نشاندہی کی کہ پناہ گزینوں کے طور پر یا خصوصی ویزے پر امریکا میں آباد کاری کے لیے کلیئر کیے گئے افغانوں کو پہلے سخت اسکریننگ سے گزرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا میں ’کسی بھی آبادی کے مقابلے میں زیادہ جانچ پڑتال‘ سے گزرتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ محکمہ خارجہ کا دفتر جو ان کی آبادکاری کی نگرانی کرتا ہے وہ خصوصی امیگرینٹ ویزا رکھنے والوں کو سفری پابندی سے استثنیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن خیال کیا جارہا ہے کہ اس کی منظوری خارج ازامکان ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے گزشتہ ماہ خبر دی تھی کہ افغان منتقلی کی کوششوں کے کوآرڈینیٹر اس دفتر سے کہا گیا ہے کہ وہ اپریل تک اسے بند کرنے کا منصوبہ تیار کر لے۔
افغان طالبان، جنہوں نے دو دہائیوں کی جنگ کے بعد اگست 2021 میں آخری امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد کابل پر قبضہ کیا تھا، عسکریت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی علاقائی شاخ کی شورش کا سامنا کر رہے ہیں، پاکستان بھی شدت پسند اسلامی عسکریت پسندوں سے نبرد آزما ہے۔
ٹرمپ کی یہ ہدایت امیگریشن کریک ڈاؤن کا حصہ ہے جو انہوں نے اپنی دوسری مدت کے آغاز میں شروع کیا تھا۔
انہوں نے اکتوبر 2023 کی ایک تقریر میں اپنے منصوبے کا جائزہ لیا، جس میں غزہ کی پٹی، لیبیا، صومالیہ، شام، یمن اور ’ امریکی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی کسی بھی دوسری جگہ’ کے لوگوں کو محدود کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
امریکی حکومت کے ساتھ افغانوں کے انخلا اور آبادکاری کے لیے کام کرنے والے گروپوں کے اتحاد AfghanEvac# کے سربراہ شان وان ڈیور نے امریکی ویزے رکھنے والوں پر زور دیا ہے کہ اگر ممکن ہو تو وہ جلد از جلد سفر کریں۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اگرچہ کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے، لیکن امریکی حکومت کے متعدد ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے ہفتے کے اندر ایک نئی سفری پابندی لاگو ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے افغان ویزا ہولڈرز پر نمایاں اثر پڑ سکتا ہے جو امریکا منتقلی کے منتظر ہیں۔
تقریباً 2 لاکھ افغان ایسے ہیں جنہیں امریکی آبادکاری کے لیے منظور کیا گیا ہے یا ان کے پاس امریکی پناہ گزین اور خصوصی امیگرینٹ ویزا کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔
وہ 20 جنوری سے افغانستان اور تقریباً 90 دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں جن میں تقریباً 20 ہزار پاکستان میں ہیں جب ٹرمپ نے پناہ گزینوں کے داخلے اور غیر ملکی امداد کو 90 دن کے لیے منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔