فوجی راستہ اختیارکیا تو یہ خوفناک ہوگا، ٹرمپ کا ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کیلئے ایران کو خط
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خط لکھ کر جوہری ہتھیاروں کی تیاری روکنے یا ممکنہ فوجی کارروائی کا سامنا کرنے کا انتباہ دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی اور رائٹرز‘ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس بزنس کو بتایا کہ میں نے انہیں ایک خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مجھے امید ہے کہ آپ مذاکرات کرنے جا رہے ہیں کیونکہ اگر ہمیں فوجی راستہ اختیار کرنا پڑا تو یہ ان (ایران) کے لیے ایک خوفناک چیز ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں انہیں یہ خط مل جائے گا، دوسرا متبادل یہ ہے کہ ہمیں کچھ کرنا ہوگا، کیونکہ ایک اور ایٹمی ہتھیار نہیں بننے دے سکتے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ریمارکس پر تبصرہ کرنے کی درخواست پر ایران کی وزارت خارجہ کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، جہاں اس وقت ہفتہ وار تعطیل ہے۔
بظاہر یہ خط ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو لکھا گیا ہے، تاہم وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر اس بارے میں کسی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں، فوجی طور پر یا پھر وہ معاہدہ کر لیں، میں معاہدہ کرنے کو ترجیح دوں گا، ایران کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا۔
2015 کے ایک تاریخی معاہدے میں پابندیوں میں ریلیف کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئیں، جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت میں 2018 میں اس معاہدے سے امریکا کو الگ کر لیا تھا۔
تہران واشنگٹن کے انخلا کے ایک سال بعد تک اس معاہدے پر قائم رہا لیکن پھر اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع ہو گیا۔
جنوری میں وائٹ ہاؤس واپسی پر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف پابندیوں کی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی کو بحال کیا کہ یہ ملک جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
تہران نے مسلسل ان دعوؤں کی تردید کی ہے اور بارہا اس معاہدے کو بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن اس مقصد کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری میں کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جو اس ملک کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکے۔
روس نے امریکا اور ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے، ایک ذرائع نے منگل کو رائٹرز کو بتایا تھا کہ کریملن نے تہران کے جوہری پروگرام پر کشیدگی کے پرامن حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کا عزم کیا۔
روسی وزارت خارجہ نے آج جاری بیان میں بتایا کہ روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے ایرانی سفیر کاظم جلالی کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔
دباؤ کی پالیسی پر امریکا کے ساتھ بات چیت نہیں ہوگی، ایران
دریں اثنا، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے آج اے ایف پی کو بتایا کہ امریکا کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کرے گا، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی پر کاربند ہیں۔
جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک امریکا کے ساتھ کسی بھی قسم کے براہ راست مذاکرات نہیں کریں گے، جب تک وہ اپنی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اور اپنی دھمکیاں جاری رکھے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو فوجی حملے میں تباہ نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ اسرائیل نے دھمکی دی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو فوجی کارروائیوں کے ذریعے تباہ نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ہم نے حاصل کی ہے، اور یہ ٹیکنالوجی دماغ میں ہے اور اس پر بمباری نہیں کی جا سکتی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیلی حملہ خطے میں وسیع تر انتشار کو جنم دے گا، مزید کہنا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو یہ حملہ خطے میں ایک وسیع آگ میں بدل سکتا ہے۔