ارمغان کے رشتہ دار سی آئی اے افسر کےخلاف کیا کارروائی کی گئی؟ ارکان پارلیمنٹ
مصطفیٰ عامر اغوا و قتل کیس پر بریفنگ حاصل کرنے کے لیے ارکان پارلیمنٹ کے ایک وفد نے سینٹرل پولیس آفس (سی پی او) کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام سے ملاقات کی، کیس میں اب تک ہونے والی پیش رفت اور دیگر امور کے بارے میں دریافت کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین عبدالقادر پٹیل کی سربراہی میں رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ اور خواجہ اظہار الحسن، آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی، ڈی جی اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف)، ڈائریکٹر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، سیکریٹری ایکسائز، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز، کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) ساؤتھ، ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) اور دیگر نے اجلاس میں شرکت کی۔
انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ غلام نبی میمن نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے قتل کیس کے بارے میں بریفنگ دی، انہوں نے کہا کہ شرکا کو بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر یہ گمشدگی کا کیس تھا جو اغوا برائے تاوان اور پھر قتل کے مقدمے میں بدل گیا۔
مزید تفتیش کے دوران جرائم کی نوعیت بدلتی چلی گئی، ملزمان منشیات، ممکنہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت میں ’نمایاں ملوث‘ تھے، جن سے اینٹی نارکوٹکس فورس، محکمہ ایکسائز اور ایف آئی اے نمٹ رہے ہیں۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ قانون سازوں نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنا کام مکمل کریں اور 10 دن کے وقفے کے بعد اگلے اجلاس میں تفصیلی نتائج پیش کریں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کی بنیادی توجہ قتل کی تحقیقات اور اس کے محرکات پر ہے، دوستوں کے درمیان کچھ ’چھوٹی موٹی باتیں‘ تھیں جس کی وجہ سے قتل ہوا۔
صوبائی پولیس چیف نے کہا کہ ہم نے قتل کے کیس کے شواہد اکٹھے کر لیے ہیں، جب کہ دیگر جرائم جیسے منشیات، منی لانڈرنگ وغیرہ کی تحقیقات دیگر ادارے کر رہے ہیں، پولیس کی توجہ بنیادی کیس اور اس کے شواہد جمع کرنے پر ہے۔
انہوں نے اس امکان کی طرف اشارہ کیا کہ منشیات، منی لانڈرنگ وغیرہ میں تحقیقات کو آگے بڑھانے کے بعد مرکزی ملزم ارمغان کے خلاف الگ الگ مقدمات درج کیے جائیں گے۔
دوسری جانب آئی جی پولیس کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شرکا کو سندھ پولیس، ایف آئی اے اور ایکسائز ڈپارٹمنٹ کی جانب سے مصطفیٰ عامر قتل کیس میں اب تک کی پیش رفت اور منشیات کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
آئی جی پولیس غلام نبی میمن، ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر، اے این ایف کے بریگیڈیئر عمران علی، ڈائریکٹر ایف آئی اے نعمان صدیقی اور سیکریٹری ایکسائز سلیم راجپوت نے مصطفیٰ عامر قتل کیس اور اس سے متعلق معاملات جیسے منی لانڈرنگ، ڈرگ مافیا اور دیگر جرائم کے بارے میں ضروری تفصیلات شیئر کیں۔
قانون سازوں نے قتل کیس کے مختلف پہلوؤں اور دیگر عوامل پر تبادلہ خیال کیا اور آئندہ اجلاس میں اداروں سے مزید جوابات اور ضروری تفصیلات طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔
اراکین اسمبلی نے اداروں کو ہدایت کی کہ وہ آپس میں ہم آہنگی پیدا کریں اور قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں ٹھوس شواہد اور جامع حکمت عملی پیش کریں۔
انکوائری میں ’مسائل‘
اجلاس سے آگاہ ذرائع نے ڈان کو یہ بھی بتایا کہ قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے داخلہ نے بہت سے سوالات اٹھائے اور خدشات کا ذکر کیا، خاص طور پر اس بات پر کہ ایف آئی اے منی لانڈرنگ کے الزامات کی انکوائری مکمل کرنے میں اتنا وقت کیوں لے رہی ہے؟
انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ پولیس حکام نے پولیس اہلکاروں کے خلاف کیا کارروائی کی؟، خاص طور پر سی آئی اے میں تعینات افسر جو مرکزی ملزم ارمغان کا قریبی رشتہ دار بتایا جاتا ہے، کیونکہ اس کی ایک ویڈیو لیک ہوئی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ ارمغان کے قبضے سے 18 کمپیوٹر، لیپ ٹاپ برآمد ہوئے ہیں۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ انہیں انکوائری میں مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ انہیں انکوائری کے لیے ارمغان کا ذاتی لیپ ٹاپ اور 2 موبائل فون درکار ہیں۔
ایف آئی اے کا مؤقف تھا کہ پولیس کو ایسے معاملات میں مہارت نہ ہونے کے باوجود ایجنسی کو ڈیٹا تک رسائی فراہم نہیں کی جا رہی۔
پولیس نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کی مداخلت کے ذریعے یہ ڈیٹا (لیپ ٹاپ، سیل فون) فراہم کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ کیس پراپرٹی ہے۔