کسان اتحاد کا حکومت سے گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے، خریداری شروع کرنے کا مطالبہ
کسان اتحاد پاکستان نے وزیرِاعظم کو گندم کے نرخ اور کسانوں کے مسائل پر خط لکھ دیا، گندم کی قیمت 4 ہزار 200 روپے فی من مقرر کرکے فوری خریداری یقینی بنانے کا مطالبہ کردیا۔
ڈان نیوز کے مطابق صدر کسان اتحاد خالد حسین باٹھ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ پچھلے سال حکومت نے گندم کا ریٹ 3 ہزار 900 روپے فی من مقرر کیا تھا، مگر خریداری نہیں کی۔
صدر کسان اتحاد پاکستان کے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر اس سال بھی حکومت نے گندم نہ خریدی تو ملکی غذائی تحفظ کو سنگین خطرہ ہوگا، کسانوں پر ناجائز ٹیکس لگا کر 50 لاکھ روپے تک کے غیر منصفانہ بل بھیجے گئے۔
خط میں یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ پاکستان اربوں ڈالرز کی گندم درآمد کرنے کی سکت نہیں رکھتا، کسانوں کو ان کا جائز حق دیا جائے۔
خالد حسین باٹھ نے کہاکہ بجلی کے اضافی بلوں کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے، کسان ناجائز ٹیکس قبول نہیں کریں گے، کسانوں کو سستی بجلی فراہم کی جائے تاکہ زرعی شعبہ تباہی سے بچ سکے.
یاد رہے کہ گندم کی کم قیمتوں اور حکومت کی جانب سے امدادی نرخوں (سپورٹ پرائس ) کے خاتمے نے گندم کے موجودہ بوائی سیزن کو متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے گندم کے کاشتکار زیادہ منافع بخش سبزیوں اور نقد آور فصلوں جیسے سرسوں اور دالوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کی جانب سے شائع کنٹری بریف آن پاکستان نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے مئی 2024 میں گندم کی کم از کم امدادی قیمت ختم کیے جانے کے بعد سے کاشت کیے گئے رقبے میں سال بہ سال کمی واقع ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2024 اور فروری 2025 کے اوائل کے درمیان اوسط سے کم بارش کی مقدار اور اوسط سے زیادہ گرم درجہ حرارت کے باوجود، آبپاشی کے پانی کی مناسب فراہمی کی وجہ سے گندم کی اہم فصل والے علاقوں میں نباتات کی صورتحال اوسط سے زیادہ تھی۔
تاہم خشک موسم نے بارش پر منحصر علاقوں (بارانی علاقوں) میں فصلوں کے ابھرنے اور ابتدائی نشوونما کو منفی طور پر متاثر کیا، جو کل لگائے گئے پودوں کا تقریباً 20 فیصد ہے، اور آبپاشی کے پانی کی کمی کی وجہ سے ملک کے شمالی حصوں میں کچھ چھوٹے آبپاشی علاقوں میں گندم کی بوائی متاثر ہوئی۔