• KHI: Maghrib 6:41pm Isha 7:56pm
  • LHR: Maghrib 6:10pm Isha 7:31pm
  • ISB: Maghrib 6:15pm Isha 7:38pm
  • KHI: Maghrib 6:41pm Isha 7:56pm
  • LHR: Maghrib 6:10pm Isha 7:31pm
  • ISB: Maghrib 6:15pm Isha 7:38pm

خوردہ فروشوں کی لالچ نے چینی کی فی کلو قیمت 180 روپے تک پہنچادی

شائع March 13, 2025
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

کچھ لالچی خوردہ فروشوں نے ہول سیل قیمتوں میں اضافے کو جواز بناتے ہوئے چینی کی خوردہ قیمت مزید 10 روپے بڑھا کر 180 روپے فی کلو کر دی۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق ایک خوردہ فروش نے بتایا کہ چینی کی ہول سیل قیمت دو ہفتے میں 153 روپے فی کلو سے بڑھ کر 168 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔

گزشتہ ماہ چینی کی اوسط قومی قیمت 145 سے 160 روپے فی کلو تھی لیکن رمضان المبارک سے قبل بھی اس میں اضافہ ہوتا رہا اور ماہ مقدس کے دوران بھی اس میں اضافہ ہورہا ہے، جنوری کے پہلے ہفتے میں چینی کی اوسط قیمت 130 سے 150 روپے فی کلو کے درمیان تھی۔

لیکن کچھ خوردہ فروش جنہوں نے مہینوں پہلے تھوک میں کم نرخوں پر بھاری اسٹاک خریدا تھا، اب موجودہ نرخوں پر چینی فروخت کرکے غیر متوقع منافع کمارہے ہوں گے۔

کراچی ہول سیلرز اینڈ گروسرز ایسوسی ایشن (کے ڈبلیو جی اے) کے صدر رؤف ابراہیم نے کہا کہ ’مجھے حکومت کا فیصلہ سازی کا عمل حیران کن لگتا ہے‘۔

رؤف ابراہیم نے یاد دلایا کہ پہلے حکومت نے چینی کی برآمد کی اجازت دی، جب تھوک نرخ 125 سے 130 روپے فی کلو تھے، لیکن تھوک اور خوردہ قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد، حکومت نے خوردہ قیمتوں کو کم کرنے کے لیے خام چینی کی درآمد کی اجازت دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خام چینی کی درآمد کی اجازت دینے کا یہ فارمولہ کارگر ثابت نہیں ہوگا کیونکہ ملز مالکان کے پاس خام چینی کو فائن شوگر میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے، ملیں گنے کی کرشنگ سے ہی چینی بنا سکتی ہیں۔

رؤف ابراہیم نے کہا کہ قیمتوں میں کمی لانے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ریفائنڈ چینی کو ٹیکس فری درآمد کرنے کی اجازت دی جائے، عالمی منڈی میں اس کی قیمت 520 ڈالر فی ٹن یعنی 150 روپے فی کلو ہے ، اگر درآمد کی اجازت دی گئی تو قیمتیں یقینی طور پر کم ہوجائیں گی۔

انہوں نے کہاکہ اس اقدام سے ذخیرہ اندوزوں کو بھی اپنا اسٹاک باہر لانے پر مجبور ہونا پڑے گا، اب تک ذخیرہ اندوزوں کو ٹف ٹائم دینے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔

پاکستان نے مالی سال 2025 کے پہلے 7 ماہ کے دوران 7 لاکھ 57 ہزار 597 ٹن چینی برآمد کی جس سے 40 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی آمدنی ہوئی جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 33 ہزار 101 ٹن چینی برآمد کی گئی تھی۔

مالی سال 2025 کے 7 ماہ میں فی ٹن اوسط قیمت کم ہو کر 537 ڈالر رہ گئی جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 636 ڈالر تھی۔

تاہم پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پنجاب زون) کے ترجمان نے گزشتہ 20 روز میں بڑھتے ہوئے ایکس مل ریٹ کی تفصیلات فراہم نہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر مل ملر کا اپنا ریٹ ہوتا ہے، برآمدات کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے‘۔

برآمد کو دوش نہ دیں

ترجمان نے اس تاثر سے اختلاف کیا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ برآمدات کی وجہ سے ہوا ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ صنعت کو دو سال تک اشیا برآمد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تاکہ مقامی قیمتوں پر پردہ ڈالا جاسکے ، جس سے لیکویڈیٹی کے مسائل پیدا ہوئے، گزشتہ سال ستمبر کے آخر میں شوگر ملز کے پاس دو سال کا سرپلس لگ بھگ 15 لاکھ ٹن اسٹاک موجود تھا جس کی مالیت 250 ارب روپے تھی، انہوں نے وضاحت کی کہ یہ بینکوں کے پاس 25 فیصد کی شرح سود پر گروی رکھا گیا تھا۔

چونکہ چینی صرف 2 سال تک ذخیرہ کی جاسکتی ہے اور اس کے بعد یہ انسانی استعمال کے قابل نہیں رہتی، یہ ایک بین الاقوامی دستور ہے کہ جب بھی کسی چیز کی مقامی پیداوار طلب سے زیادہ ہوتی ہے تو اسے برآمد کیا جاتا ہے۔

دستیاب چینی کی کل مقدار کا تقریباً 50 فیصد پیداواری لاگت سے بہت کم پر فروخت کیا گیا، جس سے صنعت کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ ترجمان نے کہا کہ ہر سال اضافی چینی کی پیداوار اور اس کی برآمد پر پابندی تاجروں پر ایک بڑا بوجھ ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 مارچ 2025
کارٹون : 13 مارچ 2025