اقوام متحدہ کی تحقیقات میں غزہ کے تولیدی مراکز پر اسرائیلی حملے نسل کشی قرار
اقوام متحدہ کی ایک تحقیقات اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنسی اور تولیدی صحت کی سہولتوں کو منظم طریقے سے تباہ کرکے ’نسل کشی‘ کی کارروائیاں کیں۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے کہا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر فلسطینی علاقے کے مرکزی تولیدی سینٹر پر حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا اور ساتھ ہی اس کا محاصرہ کرکے محفوظ حمل، زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کو یقینی بنانے کے لیے درکار ادویات سمیت امداد کو روک دیا۔
جنیوا میں اسرائیلی مشن نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیل بے بنیاد الزامات کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے‘۔
ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کمیشن نے پایا کہ اسرائیلی حکام نے جنسی اور تولیدی صحت کی دیکھ بھال کو منظم طریقے سے تباہ کر کے غزہ میں فلسطینیوں کی تولیدی صلاحیت کو جزوی طور پر تباہ کر دیا ہے‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل حملے کے دوران یہ ’نسل کشی کی دو اقسام‘ ہیں۔
اقوام متحدہ کا نسل کشی کنونشن اس جرم کی تعریف یوں کرتا ہے کہ یہ جرم کسی قومی، نسلی، رنگی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کیا جاتا ہے۔
انکوائری میں کہا گیا کہ اس کنونشن کی 5 میں سے 2 اقسام قرار دیتی ہیں کہ ’اسرائیل جان بوجھ کر مادی تباہی کے لیے گروہ کے حالات زندگی کو نقصان پہنچا رہا تھا اور گروہ کے اندر بچوں کی پیدائش روکنے کے لیے اقدامات مسلط کر رہا تھا‘۔
کمیشن کی سربراہ نوی پلے نے ایک بیان میں کہا کہ ’ان خلاف ورزیوں کی وجہ سے نہ صرف خواتین اور لڑکیوں کو فوری طور پر شدید جسمانی اور ذہنی نقصان پہنچا ہے بلکہ ایک گروہ کے طور پر فلسطینیوں کی ذہنی صحت اور تولیدی و زرخیزی امکانات پر ناقابل تلافی طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں‘۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مئی 2021 میں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں بین الاقوامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی آزاد بین الاقوامی انکوائری کمیشن قائم کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سابق سربراہ پلے نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور روانڈا کے لیے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل کی صدارت کی۔
اسرائیل نے کمیشن پر الزام عائد کیا ہے کہ ’وہ اسرائیل کی دفاعی افواج کو بدنام کرنے کی شرمناک کوشش میں پہلے سے طے شدہ اور متعصبانہ سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے‘۔
آئی وی ایف کلینک کی تباہی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں تولیدی ہسپتالوں اور وارڈز کو منظم طریقے سے تباہ کر دیا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ البسما آئی وی ایف سینٹر کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ البسما پر دسمبر 2023 میں گولہ باری کی گئی تھی جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر ایک کلینک میں تقریبا 4 ہزار ایمبریو تباہ ہو گئے تھے جو ماہانہ 2 ہزار سے 3 ہزار مریضوں کو خدمات فراہم کرتے تھے۔
کمیشن کو معلوم ہوا کہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے جان بوجھ کر کلینک پر حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا، جس میں فلسطینیوں کے مستقبل کے حمل کے لیے ذخیرہ شدہ تولیدی مواد بھی شامل تھا۔
کمیشن کو اس بات کا کوئی قابل اعتماد ثبوت نہیں ملا کہ عمارت کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا تھا، کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’یہ تباہی غزہ میں فلسطینیوں کی پیدائش کو روکنے کی نیت سے کی گئی تھی جو کہ ایک نسل کش اقدام ہے‘۔
مزید برآں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں حاملہ، دودھ پلانے والی اور نئی ماؤں کو وسیع اور بے نظیر پیمانے پر نقصان پہنچا ہے جس کا غزہ کے باشندوں کے تولیدی امکانات پر ناقابل تلافی اثر پڑا ہے۔
کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا کہ اس طرح کے بنیادی اقدامات انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور جان بوجھ کر فلسطینیوں کو ایک گروہ کے طور پر تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سرعام پامالی
یہ رپورٹ کمیشن کی جانب سے جنیوا میں منگل اور بدھ کو ہونے والی عوامی سماعتوں کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں جنسی تشدد کے متاثرین اور گواہوں کو سنا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل نے شہری خواتین اور لڑکیوں کو براہ راست نشانہ بنایا، ایسے اقدامات جو انسانیت کے خلاف قتل اور جان بوجھ کر قتل کے جنگی جرم کے زمرے میں آتے ہیں‘۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے تولیدی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی پر اثر انداز ہونے والے حالات مسلط کیے، جن کے نتیجے میں حمل اور بچے کی پیدائش سے متعلق پیچیدگیاں بھی خواتین اور لڑکیوں کی اموات کا سبب بنیں، جو انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔
کمیشن نے مزید کہا کہ جبری طور پر سرعام برہنہ کرنا اور عریانیت، جنسی ہراسانی بشمول عصمت دری کی دھمکیاں اور جنسی حملے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے ’اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر‘ کا حصہ ہیں۔