حکومت کی آئی ایم ایف کی اگلی قسط پر نظریں، پہلا جائزہ مکمل
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے جمعہ کے روز 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کا پہلا جائزہ مثبت انداز میں مکمل کرلیا، حکومت نے اخراجات کے کنٹرول، خاص طور پر ترقیاتی پروگرام کے ذریعے مالی اہداف کو برقرار رکھنے کا عہد کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فسکل پالیسیز (ایم ای ایف پی) کے مسودے کو عملے کی سطح کے معاہدے (ایس ایل اے) کے باضابطہ اعلان سے پہلے ہی حتمی شکل دی جا رہی ہے، اس کے بعد آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد اگلے ماہ کے اوائل تک تقریباً ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی تقسیم کی منظوری دی جائے گی۔
اسی لیے دونوں فریق مذاکرات کے اختتام پر خاموش رہے، حالانکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جمعہ کی صبح ہونے والے اجلاس کے دوران آئی ایم ایف سے شام تک مشن کے اختتام کا بیان جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔
تاہم اجلاس میں شریک ایک عہدیدار نے بتایا کہ وقت کے فرق اور مشن کے سفری شیڈول کی وجہ سے اس کے اجرا میں تاخیر ہو رہی ہے، کوئی تصفیہ طلب مسئلہ باقی نہیں رہا۔
حکام کا کہنا تھا کہ 2 ہفتوں تک جاری رہنے والی مصروفیات کا سب سے مشکل پہلو صنعتی کیپٹو پاور پلانٹس کے لیے گیس کے نرخوں سے متعلق تھا، تاہم مشن چیف نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف کے وفد کے اطمینان کے لیے ایک فیصلہ کیا گیا۔
چاروں صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے زرعی انکم ٹیکس متعارف کرانے کے قانون کی منظوری کو بھی ایک تاریخی قدم قرار دیا گیا، اور دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آئندہ سال کے بجٹ سے مؤثر ریکوری کے لیے زمینی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، دونوں فریقین آئندہ چند ماہ تک چاروں صوبوں کو یکجا کرنے میں تکنیکی اور طریقہ کار کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مصروف رہیں گے۔
نظر ثانی شدہ میکرو اکنامک اشاریوں، خاص طور پر جی ڈی پی نمو کے تخمینوں کے نتیجے میں وفاقی ٹیکس وصولیوں کے تخمینوں میں 600 ارب روپے سے زائد کی کمی واقع ہوئی، 12 کھرب 90 ارب روپے کے اصل بجٹ تخمینے کو اب 12 کھرب 30 ارب روپے میں ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے عملے کے مشن نے بینچ مارکس اور اہداف پر مجموعی کارکردگی کو سراہا، لیکن ریٹیل اور ہول سیل شعبوں سے بہتر وصولیوں پر زور دیا جہاں حکام کو اب تک اہداف پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، فنڈ کی ٹیم نے رئیل اسٹیٹ کے شعبوں سے بہتر وصولیوں پر بھی زور دیا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بہتر وصولیوں کے لیے رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس میں نرمی کی اپنی تجویز کا اعادہ کیا، دونوں فریق اگلے سال کے بجٹ سے قبل اس پر مزید تبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔
جی ڈی پی کی دوسری سہ ماہی کے تخمینے کے نتیجے میں معیشت کا حجم 25-2024 کے بجٹ میں رواں سال کے لیے لگائے گئے ایک ہزار 240 کھرب روپے سے کم ہو کر تقریباً ایک ہزار 160 کھرب روپے رہ گیا، تخمینے سے کم افراط زر اور معاشی نمو کو محصولات میں کمی کے جائز عوامل سمجھا جاتا تھا، لیکن پھر بھی ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کے اہداف کے اندر رہے۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ دونوں فریق ایم ای ایف پی اور ایس ایل اے کو حتمی شکل دینے اور اس کے بعد بھی اگلے سال کے بجٹ مشاورت کے لیے ورچوئل رابطے میں رہیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ پروگرام ریویوز کے مقابلے میں پہلی بار پاور سیکٹر نے بھی اپنے اہداف حاصل کیے، جس کی وجہ زیادہ بنیادی ٹیرف، کم شرح سود، مستحکم کرنسی وغیرہ ہیں تاہم تکنیکی نقصانات اور ناکافی وصولیوں کی وجہ سے آئی ایم ایف مشن کو تشویش لاحق ہے۔
آئی ایم ایف نے مختلف شعبوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں بہتری اور تجارتی سرگرمیوں میں پوائنٹ آف سیل (پی او ایس) سسٹم کے نفاذ میں اضافے پر بھی زور دیا، اس نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے بھرپور کوششیں کرنے پر زور دیا گیا۔
حکام کو توقع ہے کہ 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر سے زائد کی دوسری قسط موصول ہوگی، جسے بنیادی مقداری کارکردگی کے معیار، ساختی بینچ مارکس اور اشارے کے اہداف کی تعمیل کے بعد ایک رسمی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔
37 ماہ کے بیل آؤٹ پیکج کو گزشتہ سال جولائی میں پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ بجٹ کی بنیاد پر حتمی شکل دی گئی تھی، اور ستمبر 2024 میں باضابطہ طور پر دستخط کیے گئے تھے، ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط پیشگی جاری کی گئی تھی، باقی 7 مساوی قسطیں ہر 6 ماہ میں شیڈول کی جاتی ہیں، جن کا انحصار کارکردگی کے اہداف کی تکمیل پر ہے۔