’بمبار کو تیاری کروائی، کابل ایئرپورٹ تک پہنچایا‘، افغان دہشتگرد شریف اللہ کا اعتراف
امریکا کے تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے گرفتار افغان دہشت گرد شریف اللہ پر باضابطہ طور پر شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ خراسان (آئی ایس- کے) کو مادی مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے، جس کا تعلق 2021 کے کابل ہوائی اڈے پر بم دھماکے اور 2024 کے ماسکو کنسرٹ ہال حملے سے ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ کچھ میڈیا رپورٹس میں شریف اللہ کے کردار کی مختلف تشریحات پیش کی گئی ہیں، لیکن ایف بی آئی کا باضابطہ تحریری بیان جو شریف اللہ کے اپنے اعترافات پر مبنی ہے، ان کے ملوث ہونے کے بارے میں ایک مختلف تفصیل فراہم کرتا ہے۔
ایف بی آئی کے اسپیشل ایجنٹ سیٹھ پارکر کے دستخط شدہ حلف نامے کے مطابق شریف اللہ نے کابل ایئرپورٹ پر ایبے گیٹ بم دھماکے میں براہ راست مدد کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
میرانڈا رائٹس ختم کرنے کے بعد ایف بی آئی کے ایجنٹوں کو ایک انٹرویو میں شریف اللہ نے کہا کہ اس نے نگرانی کی تاکہ وہ خودکش بمبار کو تیار کر سکے، اور اسے ہدف بنائے جانے والے علاقے تک پہنچا سکے۔
بیان میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ شریف اللہ نے بمبار کو حملے کے مقام پر پہنچایا اور بعد میں حملہ آور کی شناخت عرفان کے نام سے ہوئی، جسے وہ قید کے دوران جانتا تھا۔
مزید برآں ایف بی آئی کی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح شریف اللہ کو بم دھماکے سے چند ہفتے قبل افغان جیل سے رہا کیا گیا تھا، اور فوری طور پر داعش نے حملے میں مدد کے لیے اس سے رابطہ کیا تھا۔
عرفان کو ایک موٹر سائیکل، موبائل فون اور سم کارڈ کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے تھے، اور حملے کی کارروائی کے دوران اس کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے ایک مخصوص سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اکاؤنٹ کھولنے کی ہدایات فراہم کی گئیں۔
شریف اللہ کے مطابق اس نے ایک کام (حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب) یہ کیا کہ حملہ آور کے لیے راستے تلاش کیے، خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور امریکی یا طالبان کی چوکیوں کی جانچ پڑتال کی۔
جانچ مکمل کرنے کے بعد شریف اللہ نے بتایا کہ اس کا خیال تھا کہ راستہ صاف ہے اور اسے نہیں لگتا کہ حملہ آور کا سراغ لگالیا جائے گا، اس کے بعد بمبار کو علاقہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
تاہم گزشتہ پیر کو عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران ’فاکس نیوز‘ اور ’نیویارک پوسٹ‘ نے خبر دی تھی کہ پارکر نے شریف اللہ کے دفاع سے زبانی طور پر اتفاق کیا تھا کہ وہ بم دھماکے کے لیے اعلیٰ سطح کے منصوبہ سازوں میں شامل نہیں تھا۔
یہ تحریری بیان کے برعکس ہے، جو اگرچہ اسے ماسٹر مائنڈ نہیں کہتا، تاہم واضح طور پر اس کے لاجسٹک اور آپریشنل کردار کی تصدیق کرتا ہے۔
یہ الجھن ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ کے کانگریس سے حالیہ خطاب کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، جہاں انہوں نے شریف اللہ کو بم دھماکے کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیا تھا، تاہم ایف بی آئی کے حلف نامے میں اس کے براہ راست ملوث ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے یہ دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔
ایف بی آئی کے بیان میں شریف اللہ کو 22 مارچ 2024 کو ماسکو کے کروکس سٹی ہال حملے سے بھی جوڑا گیا، جس میں تقریباً 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اپنے اعتراف میں شریف اللہ نے کہا کہ اسے داعش کے معروف سینئر رہنما کی جانب سے حکم ملا تھا کہ وہ ماسکو میں حملہ آوروں کو اے کے طرز کی رائفلوں اور دیگر ہتھیاروں کے مناسب استعمال کے بارے میں ہدایات فراہم کریں۔
شریف اللہ نے اعتراف کیا کہ اس نے متعدد افراد کے ساتھ ویڈیو ہدایات شیئر کیں، اور بعد میں گرفتار حملہ آوروں میں سے 2 کو وہی لوگ تسلیم کیا، جن کو اس نے تربیت دی تھی۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان نے آزادانہ طور پر شریف اللہ کا سراغ نہیں لگایا اور اسے گرفتار نہیں کیا، یہ امریکی انٹیلی جنس تھی کہ شریف اللہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوگا اور واشنگٹن نے اسے پکڑنے اور امریکا بھیجنے میں اسلام آباد کی مدد طلب کی تھی۔
شریف اللہ پر ایک امریکی قانون کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے، یہ قانون نامزد غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کو مادی مدد فراہم کرنے کو جرم قرار دیتا ہے، جرم ثابت ہونے کی صورت میں اسے زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
اگرچہ صدر ٹرمپ اور امریکی حکام نے شریف اللہ کی گرفتاری کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا ہے، لیکن ایف بی آئی کے سرکاری بیان اور عدالت کے ریمارکس میں تضادات سے پتا چلتا ہے کہ ان کے اصل کردار کی قانونی جانچ پڑتال جاری ہے۔
جیسے جیسے کارروائی جاری رہے گی، داعش کے اندر اس کی پوزیشن اور اس کے آپریشنل اثر و رسوخ کی حد کے بارے میں مزید وضاحت سامنے آسکتی ہے۔