قائمہ کمیٹی نے سینیٹ کے غلط رولز بتانے پر ڈپٹی سیکریٹری وزارت آئی ٹی کو اجلاس سے نکال دیا
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے اجلاس میں کمیٹی نے سینیٹ کے غلط رولز بتانے پر ڈپٹی سیکریٹری وزارت آئی ٹی کو اجلاس سے نکال دیا، چیئرپرسن کمیٹی نے وفاقی وزیر شزہ فاطمہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا۔
ڈان نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، ڈپٹی سیکریٹری آئی ٹی نے وفاقی وزیر آئی ٹی شزہ فاطمہ کو سینیٹ کمیٹی رولز سے متعلق گمراہ کردیا، کمیٹی نے سینیٹ کے غلط رولز بتانے پر ڈپٹی سیکریٹری وزارت آئی ٹی کو اجلاس سے نکال دیا۔
قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ ڈپٹی سیکریٹری وزارت آئی ٹی کے خلاف تحریک استحقاق لائی جائے گی، وفاقی وزیر شزہ فاطمہ ڈپٹی سیکریٹری کی طرف سے بتائے گئے غلط رولز پڑھ کر چلی گئیں، شزہ فاطمہ کمیٹی سے معافی مانگیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا، اجلاس میں ڈپٹی سیکریٹری آئی ٹی نے وزیر آئی ٹی شزہ فاطمہ کو سینیٹ کمیٹی رولز سے متعلق گمراہ کردیا۔
جس پرکمیٹی نے سینیٹ کے غلط رولز بتانے پر ڈپٹی سیکریٹری وزارت آئی ٹی کو اجلاس سے نکال دیا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ڈپٹی سیکرٹری وزارت آئی ٹی کے خلاف تحریک استحقاق لائے گی، وفاقی وزیر شزہ فاطمہ ڈپٹی سیکریٹری کی طرف سے بتائے گئے غلط رولز پڑھ کر چلی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر شزہ فاطمہ کمیٹی سے معافی مانگیں، وفاقی وزیر شزہ فاطمہ کے اس رویہ کی شدید مذمت کرتے ہیں، اگر وزیر آئی ٹی نے معافی نہ مانگی تو منٹس میں ہم اس معاملہ کو اجاگر کریں گے۔
کمیٹی اجلاس میں 8 ارب روپے ورچوئل اسٹیڈیو منصوبے پر بریفنگ کے دوران وفاقی وزیر شزہ فاطمہ خواجہ اور چیئرپرسن کمیٹی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، وزیر شزہ فاطمہ نے کہا کہ ورچوئل پروڈکشن اسٹیڈیو منصوبے پر پیپرا رولز پر عملدرآمد کیا گیا ہے، آپ ایک پارٹی کو اجلاس میں بلا کر کیسے سن سکتی ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم نے ایک کمپنی کو نہیں بلایا، یہ خود آئے ہیں، جس پر شزہ فاطمہ نے کہا کہ کوئی بھی ایسے کیسے کسی کمیٹی اجلاس میں شرکت کرسکتا ہے، ایسے تو میری پوری پارٹی اجلاس میں شرکت پہنچ جائے گی، رولز کے مطابق یہ پارلیمان کی کمیٹی ہے کوئی اوپن فورم نہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کوئی بھی عام شہری ہماری کمیٹی میں شرکت کرسکتا ہے، منصوبہ پر اگنائیٹ حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ورچوئل اسٹیڈیو منصوبے میں چار کمپنیوں نے بڈنگ کے عمل میں شرکت کی، تین کمپنیوں نے بولی میں ٹیکنیکل کوالیفائی نہیں کیا ہے جب کہ ایک کمپنی جس نے کوالیفائی کیا اسے قبول کرنا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپرا رولز کے مطابق ایک کمپنی کو بھی پروجیکٹ دیا جاسکتا ہے،بولی تینوں کمپنیوں کی کھلیں، ٹیکنیکل پروپوزل تینوں کمپنیوں کے نہیں کھلے، بورڈ نے فیصلہ کیا کہ بولی کے عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے، پیپرا رولز کے مطابق بورڈ یہ فیصلہ کرسکتا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم نے گزشتہ اجلاس میں بولی میں حصہ لینے والی کمپنیوں تقابلی جائزہ مانگا تھا۔
اگنائیٹ حکام نے کہا کہ ورچوئل پروڈکشن اسٹیڈیو پاکستان میں پہلی بار بن رہا ہے، 10 ہزار اسکوائر فٹ ایریا پر ورچوئل پروڈکشن اسٹیڈیو بن رہا ہے، بولی دہندگان کی عمر، فنائنشل اسنٹرتھ اور دیگر دستاویزات مانگی گئی تھی، تمام بولی دہندگان نے ان شرائط کو تسلیم کرکے بولی میں حصہ لیا۔
حکام نے بتایا کہ کمپنیوں سے ورچوئل پروڈکشن اسٹیڈیو کا پورا پلان مانگا گیا تھا، بولی دہندگان مقامی کے ساتھ انٹرنیشنل کمپنیوں نے بھی اپنا پلان جمع کروانا تھا، بولی دہندگان تین کمپنیوں نے 44 فیصد، 81 فیصد اور 91 فیصد نمبرات لیے، ورچوئل پروڈکشن اسٹیڈیو منصوبے سے ایک دن منصوبے 5 ہزار ڈالرز ریونیو آسکتا ہے۔
کمیٹی ممبر افنان اللہ نے کہا کہ میرے نوٹس میں اس عمل میں کچھ غلط کام نہیں ہوا ہے، اس منصوبے کے آگے نہ بڑھنے سے ملک کا نقصان پہنچ سکتا ہے، بولی دہندگان تینوں کمپنیوں کا متعلقہ تجربہ تھا، یہ منصوبہ میڈیا انڈسٹری میں انقلاب لائے گا۔
کمیٹی نے اگنائیٹ کو ورچوئل پروڈکشن اسٹیڈیو پر کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔
بعد ازاں۔ اجلاس میں ایل ڈی آئی کمپنیوں کے بقایا جات پر چیئرمین پی ٹی اے نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ جن کمپنیوں کے کیسز التوا کا شکار ہیں، ان کی سماعت کررہے ہیں، ایل ڈی آئی کمپنیوں کو ایک ایک کرکے ان کا موقف جانیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایل ڈی آئی کمپنیوں کے بقایا جات کے حوالے سے ہمارے پاس 2 آپشن زیر غور ہیں، ایل ڈی آئی کمپنیوں کے 112 کیسز اس وقت عدالتوں میں چل رہے ہیں، کمپنیاں پرنسپل رقم ایک ساتھ جمع کرادیں تو بہتر رہے گا، باقی رقم اقساط میں جمع کروانے کا بھی آپشن ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس نادہندہ کمپنیوں کے لائسنس کینسل کرنے کا بھی آپشن زیر غور ہے، پرانے لائسنس کی تجدید گزشتہ بقایہ جات ادا کریں تو لائسنس تجدید ہوں گے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت آئی ٹی کے حکام آئندہ اجلاس آکر ایل ڈی آئی کے معاملے پر وضاحت کریں، وزارت آئی ٹی خط کے ذریعے کیا چاہتی ہے، کمیٹی کو وضاحت کرے، سابق سیکریٹری آئی ٹی کیخلاف کیا کاروائی کی گئی ہے، ان کو عہدے سے ہٹانے کے علاوہ کیا کیسز نیب یا ایف آئی اے کو بھیجا گیا ہے۔