• KHI: Fajr 5:15am Sunrise 6:31am
  • LHR: Fajr 4:39am Sunrise 6:00am
  • ISB: Fajr 4:41am Sunrise 6:05am
  • KHI: Fajr 5:15am Sunrise 6:31am
  • LHR: Fajr 4:39am Sunrise 6:00am
  • ISB: Fajr 4:41am Sunrise 6:05am

سفری پابندیوں سے معیشت اور سلامتی کو خطرات لاحق ہیں، امریکی قانون سازوں کا ٹرمپ کو انتباہ

شائع March 21, 2025
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

30 سے زائد امریکی قانون سازوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ متنازع سفری پابندی کی مجوزہ بحالی کو ترک کردیں کیونکہ اس سے امریکی معیشت اور سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچے گا اور قومی سلامتی کی بہتری میں ناکامی کا باعث بنے گی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے سفری پابندیوں کو حتمی شکل دینے کے لیے جمعرات کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی، اگرچہ انتظامیہ نے باضابطہ طور پر پابندی کی تصدیق نہیں کی ہے، لیکن رپورٹ کردہ مسودہ فہرست نے پاکستان سمیت متاثرہ ممالک میں تشویش پیدا کردی ہے۔

ایریزونا سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹ رکن یاسمین انصاری اور الینوائے سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ رکن ریڈ شنائیڈر کی قیادت میں لکھے گئے ایک خط میں قانون سازوں نے ان اطلاعات پر گہری تشویش اور سخت مخالفت کا اظہار کیا ہے کہ انتظامیہ 43 ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اس اقدام کے امیگریشن پالیسی سے ہٹ کر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ’ہم آپ پر زور دیتے ہیں کہ اس انتہائی نقطہ نظر پر نظر ثانی کریں کیونکہ اس سے اہم معاشی، اخلاقی اور سلامتی کے مسائل درپیش ہیں جو اس کے مطلوبہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں‘، خط میں وسیع پابندیوں کے بجائے ’عام فہم اور دو طرفہ اصلاحات‘ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

اگرچہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر ممالک کو 3 درجوں سرخ، نارنجی اور پیلے میں تقسیم کر رہی ہے، لیکن امریکی محکمہ خارجہ نے ایسی کسی بھی فہرست کو مرتب کرنے سے انکار کیا ہے۔

اس کے بجائے محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ فی الحال پوری ویزا پالیسی کا جائزہ لے رہا ہے، یہ جواب کسی بھی ممکنہ سفری پابندیوں کے دائرہ کار اور نفاذ کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے۔

تاہم ’نیویارک ٹائمز‘ کو موصول ہونے والے مسودے میں مبینہ طور پر پاکستان کو ’اورنج‘ کیٹیگری میں شامل کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کے شہریوں کو ویزا کی منظوری کے لیے ذاتی طور پر انٹرویو سے گزرنا ہوگا۔

اگر مزید خدشات پیدا ہوتے ہیں تو ملک کو سب سے زیادہ پابندی والے ’سرخ‘ زمرے میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔

اپنے خط میں قانون سازوں نے متنبہ کیا ہے کہ اس طرح کی وسیع سفری پابندی اقتصادی تعلقات اور بین الاقوامی تعاون کو متاثر کر سکتی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی سفر، تجارت اور سیاحت ہماری معیشت کے محرک ہیں، درجنوں ممالک سے سفر پر پابندی لگانے سے سپلائی چین متاثر ہو سکتی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری رک سکتی ہے، امریکی آجروں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے کہ وہ انتہائی ضروری غیر ملکی ملازمین کو بھرتی نہ کریں اور ہماری اقتصادی ترقی میں مددگار سفارتی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔

قانون سازوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے قومی سلامتی کی بنیاد پر سفری پابندی کے جواز کو بھی مسترد کردیا اور اسے غیر موثر اور امتیازی اقدام قرار دیا۔

انہوں نے لکھا کہ ’دنیا کے بڑے حصوں سے آنے والے مسافروں پر تھوک کے حساب سے پابندی لگانا قومی سلامتی کی کوئی اشد ضرورت نہیں ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری سلامتی کو لاحق خطرات کا تعین کرنے کے لیے صرف قومیت ناکافی بنیاد ہے‘۔

خط پر دستخط کرنے والے ایک اہم رکن شنائیڈر نے اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’ایک پریشان کن قدم‘ قرار دیا اور متنبہ کیا کہ یہ امریکی اتحادیوں کو الگ تھلگ کر سکتی ہے اور عالمی ناراضی کو ہوا دے سکتی ہے۔

خط میں مزید استدلال کیاگیا ہے کہ تاریخ شاہد ہے کہ وسیع پیمانے پر سفری پابندیوں اکثر الٹا اثر ہوا ہے، اتحادیوں کو الگ تھلگ کرنے اور مخالفانہ بیانیے کو ہوا دینے سے ممکنہ طور پر کمزور آبادی انتہا پسندی کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔

سلامتی اور معاشی خدشات کے علاوہ، قانون سازوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اس طرح کی پابندیوں سے خاندانوں، طلبہ اور پیشہ ور افراد پر ذاتی اثرات مرتب ہوں گے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے سفری پابندی کا اطلاق ان کے پہلے دور حکومت میں کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں امریکی اور امریکا رہائش پذیر افراد بیرون ملک مقیم اپنے پیاروں سے جدا ہوگئے تھے، جن میں ہزاروں دادا دادی، بچے، شوہر اور بیویاں شامل تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 24 مارچ 2025
کارٹون : 23 مارچ 2025