ترکیہ میں صحافیوں سمیت 1100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا
ترکیہ میں صدر رجب طیب اردوان کے اہم حریف کی گرفتاری کے بعد سے پولیس نے صحافیوں سمیت 1100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق گزشتہ ہفتے صدر اردوان کے اہم حریف اور استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد استنبول میں مظاہرے شروع ہوئے اور بتدریج ترکی کے 81 صوبوں میں سے 55 سے زائد صوبوں تک پھیل گئے،مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور اس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی۔
53 سالہ مقبول سیاست دان اکرام امام اوغلو کو وسیع پیمانے پر اس واحد سیاست دان کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو انتخابات میں ترکی کے طویل عرصے سے حکمران چلے آرہے رجب طیب اردوان کو شکست دے سکتا ہے۔
صرف چار دنوں میں وہ استنبول کے میئر سے بدعنوانی اور دہشت گردی کی تحقیقات کے نتیجے میں گرفتار ہوئے اور پھر تفتیش کے بعد انہیں جیل بھیج کر میئر شپ سے محروم کر دیا گیا۔
اتوار کے روز، انہیں 2028 کے صدارتی انتخابات کے لیے مرکزی اپوزیشن پارٹی سی ایچ پی کے امیدوار کے طور پر بھاری اکثریت سے منتخب کیا گیا۔انہوں نے پارٹی کے امیدوار کے طور پر 15 ملین ووٹ حاصل کیے۔
پیر کے روز پارٹی ترجمان نے ان کے پارٹی کے امیدوار کے طور پر انتخاب کی تصدیق کی۔
مبصرین نے کہا کہ یہی مقبولیت تھی جس کی وجہ سے امام اوغلو کے خلاف یہ اقدام کیا گیا جو اردوان کے اہم سیاسی حریف ہیں، اردوان نے پہلے وزیراعظم اور پھر صدر کے طور پر 2003 سے ترکی کی سیاست پر غالب ہیں۔
اکرام امام اوغلو کو جیل بھیجنے کی جرمنی کی طرف سے سخت مذمت کی گئی جس نے اسے ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیا۔
پیر کو ابتدائی وقت میں ، ایم ایل ایس اے حقوق گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس نے ’مظاہروں کی کوریج کرنے پر‘ اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر سمیت 10 ترک صحافیوں کو گھروں سے حراست میں لے لیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان میں سے بیشتر سٹی ہال کے باہر بڑے پیمانے پر مظاہروں کی کوریج کر رہے تھے، جہاں اتوار کی رات دسیوں ہزار افراد جمع ہوئے تھے جبکہ اقدام امام اوغلو کی اہلیہ نے صحافیوں کی گرفتاریوں کو مسترد کردیا۔
دلیک کایا امام اوغلو نے ایکس پر لکھا، ’پریس اور صحافیوں کے ممبران کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ آزادی کا معاملہ ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس پر خاموش نہیں رہ سکتا۔‘
وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے کہا کہ بدھ کے روز مظاہروں کے آغاز کے بعد سے پولیس نے ’غیر قانونی سرگرمیوں‘ پر 1133 سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے۔
وکلا کی حراست
پچھلی راتوں کی طرح، اتوار کا اجتماع ، جو اس نوعیت کا پانچواں بڑا احتجاج تھا، فسادات کے ساتھ شدید جھڑپوں میں بدل گیا، اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے بتایا کہ استنبول اور دیگر مقامات پر پولیس کو لوگوں کو مارتے پیٹتے ہوئے دیکھا گیا۔
رات بھر کی گئی گرفتاریوں کے بارے میں فوری طور پر کوئی اطلاع نہیں ملی لیکن مغربی ساحلی شہر ازمیر بار ایسوسی ایشن نے بتایا کہ پولیس نے دو مقامی وکلاء کو گرفتار کیا ہے، جن میں اس کے سابق سربراہ بھی شامل ہیں، جو مظاہرین کی نمائندگی کر رہے تھے۔
پیر کو استنبول کے گورنر داؤد گل نے مظاہرین پر ’ مساجد اور قبرستانوں کو نقصان پہنچانے’ کا الزام لگایا، اور ’ ایکس ’ پر خبردار کرتے ہوئے لکھا ’عوامی نظم و نسق کو خراب کرنے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ’
امام اوغلو کو جب شہر کے مغربی مضافات میں واقع سیلیوری جیل بھیجا جا رہا تھا، تو اس موقع پر انہوں نے اپنے خلاف عدالتی اقدامات کو ’ بغیر مقدمہ چلائے سیاسی بنیادوں پر پھانسی دینا’ قرار دیا۔
جیل سے بعد میں ایک پیغام میں، جب ہزاروں افراد پانچویں رات جمع ہوئے، تو انہوں نے ایک جارحانہ لہجہ اپنا یا اور اپنے وکلاء کے ذریعے بھیجے گئے پیغام میں کہا، ’ میں ایک سفید قمیض پہنتا ہوں جسے آپ داغدار نہیں کر سکتے۔ میرے پاس ایک مضبوط بازو ہے جسے آپ موڑ نہیں سکتے۔ میں ایک انچ بھی نہیں ہلوں گا۔ میں یہ جنگ جیتوں گا۔’
اتوار کے پورے دن، لاکھوں لوگوں نے سی ایچ پی کے امیدوار کے لیے ووٹ دیا جو درحقیقت ایک ڈی فیکٹو ریفرنڈم بن گیا۔
بڑے پیمانے پر ہونےوالے مظاہروں کے دوران ترکی کے حکام نے اتوار کے روز آن لائن پلیٹ فارم ایکس پر 700 سے زیادہ اکاؤنٹس بند کرنے کی کوشش کی۔
حکومت اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایکس کی کمیونیکیشن ٹیم نے ایک بیان میں کہا، ’ہم ترک انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز اتھارٹی کے متعدد عدالتی احکامات پر اعتراض کرتے ہیں کہ ترکی میں نیوز آرگنائزیشنز، صحافیوں، سیاسی شخصیات، طلباء اور دیگر کے 700 سے زیادہ اکاؤنٹس کو بلاک کیا جائے۔‘