امریکا، یوکرین کو حکم دے تو بحیرہ اسود کے معاہدے پر دستخط کریں گے، روس
روس نے منگل کے روز کہا ہے کہ وہ بحیرہ اسود (بلیک سی) میں شپنگ کے تحفظ کے حوالے سے ایک نیا معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے جو یوکرین کے ساتھ جنگ بندی کی جانب ایک ممکنہ قدم ہوگا تاہم یہ تب ہی ممکن ہوگا جب امریکا ولادی میر زیلنسکی کو اس کا احترام کرنے کا حکم دے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ امریکا کی جانب سے یوکرین کو دیے جانے والا یہ حکم ہی وہ یقین دہانی ہے جس کی روس کو ضرورت ہے۔
فروری 2022 میں روس کی جانب سے یوکرین میں دسیوں ہزار فوجی بھیجنے کے بعد بحیرہ اسود میں تجارتی شپنگ کے تحفظ کے لیے 2023 میں طے پانے والے معاہدے کے خاتمے پر دونوں فریقین نے ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یوکرین کے ساتھ معاہدوں کے افسوسناک تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں واضح گارنٹی کی ضرورت ہوگی اور صرف واشنگٹن کی جانب سے ولادی میر زیلنسکی اور ان کی ٹیم کو حکم ہی یہ کام کرسکتا ہے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ ماسکو کے مطالبے سے معاہدے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے یا نہیں۔
خیال رہے کہ ولادی میر زیلنسکی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن، جنہوں نے فروری 2022 میں یوکرین میں اپنی فوج بھیجی تھی، پر امن اقدامات سے متعلق بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔
یوکرینی صدر نے کہا کہ بحیرہ اسود اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر مشتمل جنگ بندی فوری طور پر نافذ العمل ہے اور اگر ماسکو نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ سے روس پر مزید ہتھیار اور پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر روس اس جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو میں صدر ٹرمپ سے براہ راست سوال کرنا چاہتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ہیں وہ ثبوت لہذا ہم ہتھیاروں سمیت دیگر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
یوکرین کے وزیر دفاع رستم عمرف نے کہا کہ کیف نے بحری جنگ بندی اور روس اور یوکرین کی جانب سے ایک دوسرے کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملوں کو روکنے پر اتفاق کیا ہے۔
’تاہم، کیف بحیرہ اسود کے مشرقی حصے سے باہر روسی فوجی جہازوں کی کسی بھی نقل و حرکت کو خلاف ورزی اور خطرہ تصور کریں گے اور اس اس صورت میں یوکرین کو اپنا دفاع کرنے کا مکمل حق حاصل ہوگا‘۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 سالہ تنازع ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں، گزشتہ ہفتے انہوں نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن دونوں سے بات کی تھی۔
بات چیت کا مقصد توانائی اور سمندر میں مزید محدود جنگ بندی پر تبادلہ خیال کیا جاسکے کیونکہ پیوٹن نے ایک طویل فہرست کے ساتھ وسیع تر جنگ بندی کے منصوبے کا جواب دیا تھا۔
امریکا نے بنیادی طور پر 30 روزہ مکمل جنگ بندی کی تجویز پیش کی جس پر یوکرین نے 11 مارچ کو اصولی طور پر اتفاق کیا تھا۔
ٹرمپ دونوں فریقین پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ جنگ کو جلد سے جلد ختم کریں، جس کا وعدہ انہوں نے گزشتہ سال صدارتی انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام سے کیا تھا۔
دوسری جانب، یوکرین اور اس کے یورپی اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ پیوٹن کے ساتھ جلد بازی میں ایک معاہدہ کر سکتے ہیں جس سے ان کی سلامتی کو نقصان پہنچے گا۔
اس کے علاوہ، روس کی جانب سے یوکرین پر نیٹو میں شامل ہونے کے عزائم کو ترک کرنے اور روس کی جانب سے دعویٰ کیے جانے والے 4 علاقوں کو مکمل طور پر ترک کرنے جیسے مطالبات بھی منواسکتا ہے، تاہم، یوکرین نے اسے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔