• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm

روس اور یوکرین کا بحیرہ اسود میں بحری جنگ بندی پر اتفاق

شائع March 26, 2025
یوکرینی صدر نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ معاہدہ کام کرے گا، لیکن یہ درست فیصلے اور اقدامات ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
یوکرینی صدر نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ معاہدہ کام کرے گا، لیکن یہ درست فیصلے اور اقدامات ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

روس اور یوکرین نے سعودی عرب میں 3 روزہ امن مذاکرات کے بعد امریکا کے ساتھ الگ الگ معاہدوں میں بحیرہ اسود میں بحری جنگ بندی پر اتفاق کرلیا۔

بی بی سی نیوز کے مطابق واشنگٹن نے معاہدوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام فریق پائیدار اور دیرپا امن کے لیے کام جاری رکھیں گے، جو ایک اہم تجارتی راستے کو دوبارہ کھول دے گا۔

وائٹ ہاؤس نے کہا کہ فریقین نے ایک دوسرے کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ کرنے پر پہلے سے طے شدہ پابندی کو نافذ کرنے کے لیے ’اقدامات کرنے‘ کا بھی عہد کیا ہے۔

تاہم روس کا کہنا ہے کہ بحری جنگ بندی کا اطلاق خوراک اور کھادوں کی تجارت کے خلاف متعدد پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہی ہوگا۔

امریکی حکام ماسکو اور کیف کے مذاکرات کاروں سے ریاض میں الگ الگ ملاقاتیں کر رہے ہیں، جس کا مقصد دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی کروانا ہے، روس اور یوکرین کے وفود نے براہ راست ملاقات نہیں کی۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ بحیرہ اسود میں فضائی حملے روکنے کا معاہدہ درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔

کیف میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ معاہدہ کام کرے گا، لیکن یہ صحیح ملاقاتیں، درست فیصلے اور درست اقدامات ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین پر امن معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیے جانے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد کوئی بھی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ یو کرین پائیدار امن کی جانب نہیں بڑھ رہا‘۔

لیکن واشنگٹن کے اعلان کے فوراً بعد کریملن نے کہا کہ بحیرہ اسود کی جنگ بندی اس وقت تک نافذ العمل نہیں ہوگی جب تک کہ بین الاقوامی خوراک اور کھاد کی تجارت میں شامل روسی بینکوں، پروڈیوسروں اور برآمد کنندگان سے پابندیاں ختم نہیں کی جاتیں۔

روس کی جانب سے جن اقدامات کا مطالبہ کیا گیا، ان میں متعلقہ بینکوں کو سوئفٹ پے ادائیگی کے نظام سے دوبارہ منسلک کرنے، خوراک کی تجارت میں شامل روسی جھنڈے تلے جہازوں کی خدمات پر عائد پابندیاں اٹھانے اور خوراک کی پیداوار کے لیے درکار زرعی مشینری اور دیگر سامان کی فراہمی پر عائد پابندیاں ختم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے بیان سے یہ واضح نہیں ہے کہ یہ معاہدہ کب نافذ العمل ہوگا۔

پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں پوچھے جانے پر ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم ابھی ان سب کے بارے میں سوچ رہے ہیں، ہم انہیں دیکھ رہے ہیں۔‘

امریکا-روس مذاکرات کے بارے میں واشنگٹن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا، زرعی اور کھاد کی برآمدات کے لیے عالمی منڈی میں روس کی رسائی کو بحال کرنے میں مدد کرے گا۔

کیف میں بات کرتے ہوئے زیلنسکی نے اسے ’پوزیشنز کی کمزوری‘ کے طور پر بیان کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ماسکو اپنے وعدوں سے انحراف کرتا ہے تو یوکرین، روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے اور امریکا سے مزید فوجی مدد پر زور دے گا۔

بعد ازاں یوکرین کے عوام سے خطاب میں ولادیمیر زیلنسکی نے کریملن پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ بحیرہ اسود کی جنگ بندی کا انحصار پابندیوں کے خاتمے پر ہے۔

یوکرین کے وزیر دفاع رستم عمروف نے کہا ہے کہ ’تیسرے ممالک‘ معاہدے کے کچھ حصوں کی نگرانی کر سکتے ہیں، لیکن انہوں نے متنبہ کیا کہ بحیرہ اسود کے مشرقی حصے سے باہر روسی جنگی جہازوں کی نقل و حرکت کو معاہدے کی خلاف ورزی اور یوکرین کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس صورت میں یوکرین کو اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے کا مکمل حق حاصل ہوگا۔

اس سے قبل 2022 میں روس کی جانب سے یوکرین پر مکمل حملے کے بعد بحیرہ اسود میں تجارتی جہازوں کو محفوظ گزرنے کی اجازت دینے کے معاہدے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

یوکرین اور روس دونوں اناج برآمد کرنے والے بڑے ملک ہیں، اور جنگ کے آغاز کے بعد اناج کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

’بحیرہ اسود کے اناج کا معاہدہ‘ یوکرین سے آنے اور جانے والے مال بردار جہازوں کو روس کی طرف سے حملے کے بغیر محفوظ طریقے سے گزرنے کی اجازت دینے کے لیے کیا گیا تھا۔

اس معاہدے نے بحیرہ اسود کے ذریعے اناج، سورج مکھی کے تیل اور خوراک کی پیداوار کے لیے درکار دیگر مصنوعات جیسے کھاد کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کی۔

ابتدائی طور پر یہ معاہدہ 120 دن کے لیے نافذ کیا گیا تھا، لیکن متعدد بار توسیع کے بعد روس نے جولائی 2023 میں یہ کہتے ہوئے اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی کہ معاہدے کے اہم حصوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

رواں ہفتے مذاکرات کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے علاقے میں توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملوں پر پابندی کے نفاذ کے لیے ’اقدامات کرنے‘ پر بھی اتفاق کیا ہے۔

یوکرین کی بجلی کی فراہمی پر روسی حملوں کی وجہ سے جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر بلیک آؤٹ ہوا، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد خود کو سردی سے بچانے میں ناکام رہے۔

یوکرین کے جوہری بجلی گھروں پر حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے تحمل سے کام لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کے درمیان گزشتہ ہفتے بات چیت میں ابتدائی طور پر اس پابندی پر اتفاق کیا گیا تھا، لیکن اس کے اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ماسکو اور کیف دونوں نے ایک دوسرے پر اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔

اس سے قبل منگل کے روز ماسکو نے کہا تھا کہ یوکرین نے روس کے سویلین انرجی انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنانا جاری رکھا ہے، جب کہ ریاض میں امن مذاکرات جاری ہیں۔

روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ مبینہ حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیلنسکی ’معاہدوں پر قائم رہنے کے قابل نہیں تھے۔‘

روس کی جانب سے پیر کے روز یوکرین کے شمال مشرقی علاقے کو نشانہ بنانے والے میزائل حملے کے نتیجے میں سومی شہر میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

منگل کی صبح یوکرین نے کہا تھا کہ روس نے رات گئے 139 ڈرون اور ایک بیلسٹک میزائل داغا ہے، کیف نے دعویٰ کیا تھا کہ کرسک میں فوجی بنیادی ڈھانچے پر فضائی حملے میں 30 روسی فوجی ہلاک ہوئے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025