مردان میں دہشتگردوں کیخلاف کارروائی میں شہریوں کی اموات پر افسوس ہے، بیرسٹر سیف
خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ مردان میں مطلوب دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے دوران افسوسناک واقعہ پیش آیا اور کارروائی میں غیرمسلح افراد کے مارے جانے کا افسوس ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق بیرسٹر سیف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ضلع مردان کے پہاڑی علاقے کاٹلنگ میں دہشت گردوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر ایک انسداد دہشت گردی کارروائی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق یہ مقام دہشت گرد عناصر کے ٹھکانے اور نقل و حرکت کے لیے استعمال ہو رہا تھا جس پر ان عناصر کے خلاف کارروائی کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ موصول معلومات کے مطابق کارروائی کے مقام کے اطراف میں بعض غیر مسلح شہری موجود تھے، کارروائی میں غیر مسلح افراد کے مارے جانے کا افسوس ہے، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ یہ ایک دلخراش اور افسوسناک واقعہ ہے جو دہشت گردوں کو مارے جانے کے نتیجے میں رونما ہوا، حکومت متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتی ہے اور ان کے ساتھ اس غم کی گھڑی میں کھڑی ہے۔
یاد رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے نومبر 2022 میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے بعد پاکستان، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کی کاررائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ علاقے میں شہریوں کی موجودگی سے متعلق تحقیقات کی جارہی ہیں جب کہ حکومت کی جانب سے زخمیوں کو فوری طبی امداد کی فراہمی جارہی ہے اور جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے امداد اور معاوضے کی فراہمی یقینی بنارہی ہے۔
ترجمان خیبرپختونخوا حکومت کا کہنا تھا کہ کارروائی کے دوران کئی اہم مطلوبہ دہشت گردوں کو کامیابی سے ہدف بنایا گیا جو کہ علاقے میں جاری دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث تھے، تاہم ایسی کارروائیوں کے دوران عام شہریوں کے تحفظ کو ہمیشہ اولین ترجیح دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض اوقات پیچیدہ جغرافیہ، دہشت گردوں کی جانب سے شہری آبادی میں چھپنے کی حکمت عملی، اور آپریشن کی ہنگامی نوعیت کے باعث ناخواستہ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
’ڈرون حملے‘ کے خلاف احتجاج
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواکے معاون خصوصی برائے ہاؤسنگ اور سوات سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے ڈاکٹر امجد علی نے آج اپنے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو بیان اپ لوڈ کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ آج صبح کاٹلنگ علاقے میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں گجر برادری سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کو ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے میں 9 افراد شہید ہوئے جن کی اب تک شناخت ہو چکی ہے، تاہم کچھ بچے اب بھی لاپتا ہیں اور لاشوں کی حالت کی وجہ سے ان کی شناخت کرنا مشکل ہے۔
ڈاکٹر علی نے کہا کہ میں وفاقی حکومت اور حکام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کا کیا جرم تھا، سوات سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ پہاڑوں میں مویشی چرا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں علاقے میں داخل ہونے نہیں دیا گیا، ہم سے کہا گیا کہ آپ لاشیں نہیں اٹھاسکے، ویڈیوز نہیں بناسکتے، کیا یہ لوگ سرحد پار سے آئے تھے؟ یہ تو سوات کے مقامی اور پر امن لوگ تھے جو ہزاروں سالوں سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔
علاوہ ازیں، مظاہرین نے ڈان کو بتایا کہ یہ ایک ڈرون حملہ تھا جس میں ایک خاندان سے تعلق رکھنے والے 9 افراد شہید ہوگئے۔
مظاہرین کی جانب سے حملے کا الزام سیکیورٹی فورسز پر عائد کیا گیا، جاں بحق ہونے والوں میں حضرت بلال، نور محمد، وزیر، امروز خان، شہزادہ عرف شاہ دا، 2 خواتین اور 2 بچے شامل ہیں۔
لواحقین کی جانب سے لاشوں کو سوات موٹر وے پر رکھ کر احتجاج کیا گیا اور اس دوران ٹریفک کی روانی بھی معطل ہوگئی جب کہ کسی بھی ناخشگوار واقعے سے نمٹنے ککے لیے پولیس کی بھاری نفری موقع پر تعینات کی گئی۔