• KHI: Asr 5:07pm Maghrib 7:04pm
  • LHR: Asr 4:46pm Maghrib 6:46pm
  • ISB: Asr 4:54pm Maghrib 6:55pm
  • KHI: Asr 5:07pm Maghrib 7:04pm
  • LHR: Asr 4:46pm Maghrib 6:46pm
  • ISB: Asr 4:54pm Maghrib 6:55pm

بلوچستان: مختلف سیاسی جماعتوں کی احتجاج پر پابندی کی مذمت، لانگ مارچ میں شامل ہونے کا اعلان

شائع April 5, 2025
نیشنل پارٹی، پی ٹی آئی، اے این پی اور دیگر جماعتوں نے بی این پی مینگل کے لانگ مارچ میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے— فوٹو: پی پی آئی
نیشنل پارٹی، پی ٹی آئی، اے این پی اور دیگر جماعتوں نے بی این پی مینگل کے لانگ مارچ میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے— فوٹو: پی پی آئی

بلوچستان میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت کی جانب سے دھرنوں اور مظاہروں پر لگائی گئی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر آئینی عمل قرار دیا ہے، کیونکہ ریلیاں نکالنا ہر ایک کا حق ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی (ایم) اتوار کو مستونگ سے کوئٹہ میں اپنا مارچ شروع کرنے والی ہے، تاہم حکومت صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتظامی اقدامات کر رہی ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت اور بی این پی (ایم) مذاکرات میں کوئی پیش رفت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، سیاسی اور قبائلی حلقوں کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے بیک ڈور کوششیں جاری ہیں۔

کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مشترکہ طور پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کو یاد دلایا کہ آئین ہر شہری کو اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ریلیاں نکالنے، مارچ منعقد کرنے اور دھرنے دینے کی اجازت دیتا ہے۔

تاہم انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت نے عوام کے جمہوری اور آئینی حق کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا ہے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں بی این پی (ایم) کے سینئر نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ، نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل میر کبیر احمد محمد شاہی، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صوبائی صدر داؤد شاہ کاکڑ، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے راشد خان ناصر اور بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین راہیب بلیدی شامل تھے۔

انہوں نے بی وائی سی کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کو حراست میں لینے پر حکومت کی مذمت کی اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا، انہوں نے حکام پر ان کے جمہوری حقوق کو دبانے کا الزام عائد کیا اور پابندیوں کے باوجود پرامن طریقے سے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عہد کیا۔

ساجد ترین نے کہا کہ لاپتا افراد اور بے گناہ افراد کی غیر قانونی حراست کا معاملہ صرف ایک جماعت تک محدود نہیں، بلکہ پورے صوبے کو متاثر کرتا ہے۔

انہوں نے مارچ کے شرکا کو روکنے کے لیے شاہراہوں پر خندقیں کھودنے پر حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل طاقت کے ذریعے حل نہیں کیے جا سکتے۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور حراست میں لی گئی خواتین کو فوری طور پر رہا کرے، انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بلوچستان کے عوام کے لیے عزت کا سوال بن گیا ہے۔

داؤد شاہ کاکڑ نے حکومت پر دوہرا معیار برقرار رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر ناانصافی جاری رہی تو صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ بی این پی رہنما اختر مینگل کو کوئٹہ میں داخلے کی اجازت دی جائے اور تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

راہیب بلیدی نے اعلان کیا کہ بلوچستان میں غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ ہے، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور لاقانونیت عروج پر ہے۔

بی این پی سے مذاکرات جاری

اگرچہ حکومت اور بی این پی (ایم) کی قیادت نے ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کی گرفتاری پر اپنے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں دکھائی، لیکن موجودہ صورتحال کا حل تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

یاد رہے کہ اختر مینگل نے کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ 5 اپریل تک مستونگ کے علاقے لک پاس پہنچ جائیں، تاکہ وہ اگلے روز کوئٹہ کی جانب بڑھنا شروع کرسکیں، بی این پی (مینگل) بی وائی سی کے تمام رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

نیشنل پارٹی، پی ٹی آئی، اے این پی اور دیگر جماعتوں کی قیادت نے بی این پی (ایم) کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مارچ میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب حکومت مارچ کے شرکا کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکنے کے انتظامات کر رہی ہے، داخلی راستوں پر ٹریلر کھڑے کیے گئے ہیں، جب کہ سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے، اور مزید اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

تاہم سیاسی اور قبائلی حلقوں کے ذریعے صورتحال پر قابو پانے کے لیے بیک چینل کوششیں بھی جاری ہیں۔

وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے عید کی تعطیلات کے دوران اپوزیشن جماعتوں کی قیادت سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا، جس میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک بلوچ، جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع اور دیگر رہنما شامل تھے۔

گزشتہ ہفتے سرفراز بگٹی نے بلوچستان اسمبلی کے فلور پر یہ پیشکش بھی کی تھی کہ اگر حکومت اس مسئلے کو حل کر سکتی ہے تو وہ ایک کمیٹی تشکیل دینے اور اس کی صدارت ڈاکٹر مالک یا اپوزیشن لیڈر یونس عزیز زہری کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں۔

حکومت کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ دونوں فریقوں کے پاس اب بھی 24 گھنٹے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

دریں اثنا جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے خبردار کیا ہے کہ صورتحال تیزی سے نازک ہوتی جارہی ہے، وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی تیزی سے کنٹرول کھو رہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو سرفراز بگٹی وزیر اعلیٰ کی اور اپنی سیاسی حیثیت، دونوں کھو دیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 6 مئی 2025
کارٹون : 4 مئی 2025