ملکی سلامتی کے تحفظ کیلئے فوج ’حالت جنگ‘ میں ہے، وزارت دفاع کا سپریم کورٹ میں بیان
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو شہریوں کے خلاف فوجی ٹرائل سے متعلق مقدمات کی سماعت کے دوران پیر کو بتایا گیا کہ پاک فوج ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے حالت جنگ میں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل خواجہ حارث احمد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کی دفعات 2 (1) (ڈی) (آئی) اور (2) کا مقصد مسلح افواج کے دیگر ارکان کی طرح ان دفعات کے تحت کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا احتساب کرنا تھا، کیونکہ اس میں ملک کی سلامتی اور دفاع شامل ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ شہدا فورم بلوچستان سمیت دیگر کی جانب سے دائر 38 انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی، جس میں 2023 میں 5 رکنی بینچ نے 9 مئی کے تشدد میں ملوث فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کو کالعدم قرار دیا تھا۔
خواجہ حارث نے وضاحت کی کہ 9 مئی 2023 کے واقعات میں فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا تھا، اس سے ملک کی سلامتی اور سالمیت کو براہ راست خطرہ لاحق تھا، اور اس لیے ان جرائم میں ملک کا دفاع شامل تھا، انہوں نے دلیل دی کہ مجرموں کے مقدمات بدنیتی کی بنیاد پر نہیں بنائے گئے تھے۔
وکیل نے کہا کہ ملزمان کے خلاف لگائے گئے جرائم انسداد دہشت گردی ایکٹ کے دائرے میں نہیں آتے، بلکہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور پاکستان آرمی ایکٹ کے دائرے میں آتے ہیں۔
آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کو صرف اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں، خاص طور پر جب منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنانے کے لیے آرٹیکل 10 اے جیسی دفعات گرین بک میں شامل کی گئی ہیں۔
وکیل نے جواب دیا کہ جب ملک کی سلامتی کی بات آتی ہے تو سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بھی وضاحت کی کہ خطرے کی سطح یا خطرے کی سنگینی کا اندازہ لگانا مجاز حکام کا کام ہے۔
وکیل کی رائے تھی کہ قانون کی تشریح یا اس کا تعین کرتے وقت اسے ختم کرنے کے بجائے قانون سازی کو بچانے پر ہمیشہ زور دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی قوانین کا مقصد مسلح افواج میں نظم و ضبط کو یقینی بنانا ہے۔
تاہم جب وکیل نے کہا کہ فوجی حکام پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) کے تحت کسی شہری کی جانب سے کیے گئے کسی بھی جرم کا نوٹس لے سکتے ہیں، جس کے لیے ایف آئی آر کا اندراج بھی ضروری نہیں ہے، تو جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اس وقت کیا طریقہ کار اپنایا جائے گا اور اگر ملزم کو پی اے اے کے تحت ایف آئی آر کے بغیر گرفتار کیا گیا تو کیا ملزم مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوگا؟
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر کے بغیر کیسے نوٹس لیا جا سکتا ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کرنے سے پہلے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
وکیل نے کورٹ مارشل کی حیثیت پر روشنی ڈالی اور وضاحت کی کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175 (3) کے تحت نہیں ہیں، جو عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی اے اے کے تحت قائم فوجی عدالتیں کسی ہائی کورٹ کے ماتحت نہیں ہیں اور اس لیے آئین کے آرٹیکل 175 (3) کے دائرے میں نہیں آتیں۔
جب جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 (3) کے تحت نہیں آتیں تو وہ کس آئینی شق کے تحت آئیں گی؟ خاص طور پر جب آرٹیکل 175 خصوصی طور پر عدلیہ کے بارے میں بات کرتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ فوجی عدالتیں ہائی کورٹ کے ماتحت نہیں ہیں۔ اس معاملے کی سماعت منگل کو دوبارہ کی جائے گی۔