!عزت راس نہیں آتی
کہتے ہیں کہ ملّا نصرالدین نے اپنے ایک ہمسائے سے کچھ برتن ادھار لیے۔ استعمال کے بعد جب ملّا نے وہ برتن واپس کیے تو ان میں سے کچھ ٹوٹے ہوئے تھے۔ پڑوسی نے شکایت کی تو ملّا نے کہا کہ اول تو میں نے آپ سے برتن لیے ہی نہیں، دوسرے جب آپ نے برتن مجھے دیے تو وہ پہلے سے ٹوٹے ہوئے تھے اور تیسرے جب میں نے وہ برتن واپس کیے تو وہ ٹھیک حالت میں تھے۔
اگر آپ نے اب سے کوئی سال بھر پہلے کسی سائبر جہادی یا اخباری ملّا سے ملالۓ پر حملے کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کی ہو تو مجھے یقین ہے کہ اس کا جواب ملّا نصیرالدین سے کچھ زیادہ مختلف نہیں رہا ہوگا۔
"ملالئے امریکی ایجنٹ تھی جبھی تو بی بی سی نے اس کی ڈائری چھاپی تھی"۔
لیکن مولانا بی بی سی تو برطانوی ادارہ ہے۔
"وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ سب ڈرامہ ہے ملالئے کو گولی لگی ہی نہیں"۔
لیکن پشاور کے ہسپتال کا عملہ، میڈیا کے کارکن، پنڈی میں سی ایم ایچ والے، ہیلی کاپٹر کا عملہ سب تو سازش میں شریک نہیں ہو سکتے ایسا ہوتا تو کوئی نا کوئی تو بولتا۔
"ہو سکتا ہے گولی لگی ہو لیکن طالبان نے نہیں ماری"۔
ارے بھائی انہوں نے تو خود ذمہ داری قبول کرلی ہے!
"اچھا واقعی، اصل میں طالبان تو خود امریکہ کے ایجنٹ ہیں"۔
لیجیے، امریکہ کے ایجنٹ کو امریکہ کے ایجنٹ نے گولی مار دی قصہ تمام ہوا۔
وقت جیسے جیسے گزرا یہ سازشی نظریے اخبار کے صفحوں اور فیس بک کے پیجز سے اتر کر ردی کی ٹوکری میں، جو ان کی مناسب ترین جگہ تھی، جانے کے بجائے وفاق المدارس السازشیہ فی الباکستان کے اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے عہدے داروں کی یاداشت کی فائلوں میں سنبھالی گئی تاکہ محفوظ رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔
سازش کی یہ فائلیں اس وقت دوبارہ کھولی گئیں جب ملالئے کو نوبل انعام ملنے کے امکان پر بات شروع ہوئی۔
ایجنٹ ہے بھئی ایجنٹ ہے کے نعروں کی گونج میں الزامات کے جلوس اور جہالت کی مظاہرے آپ نے اخباروں میں بھی دیکھے ہوں گے اور سوشل میڈیا پر بھی انہوں نے خاصی رونق لگائے رکھی۔
انہی مظاہروں میں ایک دن وہ آیا کہ جب "لبرل فاشسٹوں" کی لال مسجد کے پیش امام طنز کا برقع اوڑھے انہی مظاہروں میں شریک پائے گئے۔ مزاح کی نقاب میں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کا منظر کچھ ایسا تھا کہ پکّا سا منہ بنائے اندر ہی اندر ہنستے ہوئے پراچہ صاحب صرف عقل کی آنکھ سے دیکھنے والوں کو تو دیکھ رہے تھے لیکن سازش کے شٹل کاک کی جالی سے دنیا دیکھنے والوں کو لبرل فاشسٹ ندیم پراچہ پر جماعت اسلامی کے فرید پراچہ کا گمان گزرا۔
نتیجہ اس چھپن چھائی کا یہ نکلا کہ اس طنزیہ تحریر نے جس میں لبرل پراچہ صاحب نے ملالئے کے حوالے سے سازشی نظریے گھڑنے اور انہیں پھیلانے والوں پر چوٹ کی تھی، قبولیت کے لحاظ سے اصل لال مسجد کے برقع پوش مولانا کے انٹرویو کا ریکارڈ اور سازش کا ننھا سا دل توڑ کے رکھ دیا۔ بہت سے پڑھنے والے اس طنز کو پانے میں ناکام رہے اور ندیم پراچہ کو اپنا ہم نوا سمجھ کر اپنا مذاق آپ اڑاتی اس 'سازش' کا شکار ہو گئے۔
اس 'لبرل سازش' سے اور کچھ ہوا یا نہیں اتنا ضرور پتا چل گیا کہ ذہنی بیماری کا پتا چلانے کے لیے کسی ڈی این اے کی ضرورت نہیں پڑتی ہزار ڈیڑھ ہزار لفظ کا ایک بلاگ کافی ہوتاہے۔
اگر آپ ملالئے سازش تھیوری کو پڑھتے رہے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ملالئے کو سازش قرار دینے والے دو قسم کے ہیں۔ ان میں سے ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے جو طالبان کو اسلام کا نمائندہ سمجھتے اور اسلام کے ان نمائندوں کے عشق میں مبتلا ہیں۔
یہ حضرات عام طور پر نظریے کی فوٹو شاپ کھولے، ملالئے کی تصویروں میں امریکی جھنڈوں کا رنگ بھرتے اور فتووں کے حاشیے لگاتے مل جاتے ہیں۔ سازش تھیوری کا دوسرا اور بڑا حصہ وہ لوگ ہیں جو ملالئے کے حوالے سے اپنے ذہن میں موجود سوالات کے جواب نہ ملنے پر سازش تھیوری کو ہی صحیح جان کر اسے حسب توفیق پھیلانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
طالبان کو اسلام کا نمائندہ سمجھنے والوں سے تو ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے لیکن وہ سولات جو عام ذہنوں میں کنفیوزن پیدا کر رہے ہیں انہین سمجھنا اور ان کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے۔
اگر ہاں تو کیوں؟ آخر اس نے ایسا کیا کیا ہے؟ اگر وہ ہیرو نہیں ہے تو مغرب اسکی اتنی پذیرائی کیوں کر رہا ہے؟ اور بھی تو ہزاروں بچیاں ہیں دو تو ملالئےکے ساتھ زخمی بھی ہوئی تھیں یہ پذیرائی ان کا حصہ کیوں نہیں؟
کوشش کی جائے توان اور ان سے ملتے جلتے اور سوالات کا جواب سازش تھیوری کے علاوہ بھی دیا جا سکتا ہے لیکن شاید ہم مشکل سوالوں کے آسان جواب ڈھونڈنے کے عادی ہو گئے ہیں یہ جانے بنا کے مشکل سوالوں کے سادہ اور آسان جواب عموما عموماً غلط ثابت ہوتے ہیں۔
یوں تو ملالئے کو ہیرو نا ماننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم کسی ایسے فرد کو ہیرو ماننے پر تیار نہیں ہوتے جسے صرف ایک گولی کھا کے ہسپتال جانا پڑے۔ ہمارا ہیرو تو وہ ہوتا ہے جو درجن بھر بندوق برداروں کے برسٹ اپنے جسم پر لے کر بھی مرنے سے پہلے دشمن کی لاشوں پر بھنگڑا ڈالنا ضروری سمجھتا ہے۔
تفنن برطرف، ملالئے ہیرو ہے یا نہیں یہ سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا پڑے گا کہ ہیرو کون ہوتے ہیں اور کیسے بنتے ہیں؟
ہمارا معاشرہ عام طور پر جن لوگوں کو اپنا ہیرو قرار دیتا ہے ان میں ایک بڑی تعداد جنگنوؤں کی ہے۔ قدیم تاریخ ہی نہیں ہماری حالیہ تاریخ میں بھی غیر متنازعہ طور پر ہیرو تسلیم کیے جانے والے لوگ جنگیں لڑنے اور مارے جانے والے افراد ہیں۔
جو معاشرے تضادات اور ٹکراؤ سے بھرپور اور ان کو حل کرنے کے کسی متفقہ طریقے سے محروم ہوتے ہیں ان میں مسئلوں کا حل تصادم اور اس میں اپنی جان پر کھیلنے والے ہی ہیرو قرار پاتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ ایک ایسے ہی مرحلے سے گزر رہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ کہ ہم نا صرف اپنے ہیرو جنگوں میں تلاش کرتے ہیں بلکہ عام زندگی کے کسی ہیرو کو پہچاننے اور اسے ہیرو ماننے میں مشکل بھی محسوس کرتے ہیں۔
جو معاشرے اس مرحلے سے گزر کے گروہوں کے بجائے قوم میں ڈھلنے اور تنازعات کے حل سمیت معاشرے کے مختلف فنکشن اداکرنے والے ادارے تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں ان کے ہیرو کی تعریف نسبتا مختلف ہے۔
دنیا اب صرف جنگوں میں مارے جانے والوں کو ہی ہیرو نہیں کہتی بلکہ کوئی بھی ایسا فرد جو اپنے ذاتی نقصان کی پرواہ کیے بغیر یا خود کو خطرے میں ڈالتے ہوئے معاشرے میں طاقت کے کسی غیر اخلاقی استعمال کو روکنے کے لیے آواز اٹھائے اسے بھی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ملالئے کو یورپی یونین نے انسانی حقوق کا جو سخروف ایوارڈ دیا ہے اس ایوارڈ کے لیے ملالئے کے مقابل ایک امیدوار ایڈورڈ سنائیڈن بھی تھا۔ وہی سنائیڈن جس نے اپنی نوکری اور ذاتی آزادی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے سی آئی اے کی طرف سے دنیا بھر کے شہریوں کی ای میلز، فوں کالز اور انٹرنیٹ پر دیگر سرگرمیوں کی اس نگرانی کا راز فاش کیا تھا جسے بعد میں امریکی انتظامیہ نے قانونی بھی قرار دے دیا۔ ہمیں یہ سمجھنے کے لیے کہ ملالئے نے ہیروز والا کون سا کام کیا ہے اپنی ہیرو کی تعریف کو تھوڑا سا وسیع کرنا پڑے گا۔
کیا سینکڑوں سکول اڑانے والے طالبان کے سائے تلے خوف کے زندگی بسر کرتے ہوئے تعلیم جیسا بنیادی حق مانگنے کے لیے کسی جرات کی ضرورت نہیں تھی؟
طالبان جن علاقوں میں سوات سے پہلے قبضہ کر اور سکول اڑا چکے تھے وہاں کی کسی بچی تو کیا کسی استاد نے بھی یہ جرات دکھائی تھی؟
یقیناً خوف کی جس فضا میں وہ بچّے اور اساتذہ زندہ تھے اور ہیں اس میں انہیں یہ کام نا کرنے پر کوئی الزام نہیں دیا جا سکتا لیکن اگر کسی لڑکی نے یہ ہمت کی تو اسے سراہنا نہ صرف صحیح بلکہ نہایت ضروری ہے، کیونکہ ایسی ہی چند روشن مثالیں نسلوں اور قوموں کے لئے مشعل راہ بنتی ہیں.
اگر ہم ان سوالوں کے جواب خود سے مانگ لیں تو بہت آسانی سے یہ پتا چلایا جا سکتا ہے کہ ملالئے ہیرو ہے یا نہیں اور اس نے ایسا کون سا کام کیا تھا کہ اسے ہیرو مانا جائے۔
ہیرو ز کے ضمن میں ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ہیرو اور سیلیبرٹی میں فرق کرنا بھول گئے ہیں۔ ہر مشہور آدمی ہیرو نہیں ہوتا اور ہر ہیرو کو شہرت نہیں مل پاتی۔
بہت سے لوگ جو ملالئے سے خوفزدہ طالبان کا نام لینے سے بھی گھبراتے ہیں ہمارے یہاں بہت مشہور ہیں لیکن ان میں اس اخلاقی جرات کی بے حد کمی ہے جس کا بھرپور مظاہرہ ملالئے نے کیا اور اب بھی کر رہی ہے۔ اس لیے میں ملالئے کے برخلاف انہین سلیبرٹی تو سمجھتا ہوں ہیروکا درجہ دینے کو ہرگز تیار نہیں۔
رہا سوال یہ کہ مغرب ملالئے کو اتنی پزیرائی کیوں دے رہا ہے تو اس سوال کا جواب کچھ حد تک تو اس بات میں موجود ہے کہ مغرب ہیرو کسے سمجھتا ہے۔ باقی جواب کے لیے ہمیں مغرب سے زیادہ اپنے آپ کو اور مغرب سے اپنے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد شاید ہم یہ سمجھ سکیں کہ مغرب اسے پزیرائی کیوں دے رہا ہے یا ہم اسے پزیرائی کیوں نہیں دے رہے۔
دنیا کے وہ ملک جنہیں ہم 'مغرب' کے ایک بریکٹ میں اکٹھا کرتے اور ایک سمجھتے ہیں ہمارے دماغ پر بہت بری طرح سوار ہیں ورنہ شاید یہ سوالات کہ مغرب کیا کر رہا ہے اور جو کر رہا ہے وہ کیوں کر رہا ہے اور ہم جو کہہ رہے ہیں وہ کیوں نہیں کر رہا ہمارے لیے اتنے اہم نہ ہوتے۔
مغرب سے ہمارا رشتہ بہت عجیب ہے۔ ہم اس سے نفرت بھی کرتے ہیں اور اس جیسا بننا بھی چاہتے ہیں۔ اپنے کارناموں کی پذیرائی کے لیے اس کی طرف دیکھتے بھی ہیں اور جس کام کی پذیرائی وہ کرتا ہے اس کی طرف سے فوراً مشکوک بھی ہو جاتے ہیں۔
میں اپنے مطالعہ پاکستان کے استاد سے لے کر جید کالم نگاروں تک سینکڑوں ایسے دانشوروں کو جانتا ہوں جنہیں آج تک یہ شکایت ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور کو نوبل انعام دیا گیا اور اقبال کو نظر انداز کر دیا گیا۔ مزے کی بات یہ کہ آج ویسے ہی لوگ ملالئے کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے پر ناراض ہیں۔
ہمارے یہاں کوئی بچہ اے یا او لیول کے امتحان میں ڈیڑھ دو درجن 'اے' لیتا ہے تو ہم اخبار کے پہلے صفحے پر اس کا رزلٹ کارڈ بھی چھاپتے ہیں اور اگر ان بچوں میں سے کوئی امریکی سفیر سے انعام لینے سے انکار کر دیتا ہے تو اس کے لیے تالیاں بھی پیٹتے ہیں۔
ہم تو ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ او لیول میں دو درجن اے لینا اچھی بات ہے یا لڑکیوں کے سکول اڑانا دنیا کے سب اچھے دین کا حکم۔
جب تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر لیتے تب تک ہم کبھی تالیاں پیٹ کر ہاتھ اور کبھی گال پیٹ کر منہ لال کرتے رہیں گے لیکن اس سے مغرب کو کوئی فرق پڑے گا نا مشرق کو۔ سورج یونہی مشرق سے نکلتا اور مغرب میں ڈوبتا رہے گا اور ہم سازشی تھیوریوں میں غوطے کھاتے رہیں گے۔ ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے.
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں
تبصرے (41) بند ہیں