• KHI: Maghrib 6:51pm Isha 8:09pm
  • LHR: Maghrib 6:27pm Isha 7:50pm
  • ISB: Maghrib 6:34pm Isha 7:59pm
  • KHI: Maghrib 6:51pm Isha 8:09pm
  • LHR: Maghrib 6:27pm Isha 7:50pm
  • ISB: Maghrib 6:34pm Isha 7:59pm

شام، صومالیہ اور پاکستان صحافیوں کیلیے خطرناک ترین ملک

شائع December 19, 2012

صحافیوں کے قتل کیخلاف پاکستانی صحافی احتجاج کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو اے پی۔۔۔

واشنگٹن: دو ہزار بارہ بھی صحافیوں اور میڈیا کیلیے انتہائی بھاری سال ثابت ہوا ہے اور اس سال دنیا بھر میں 67 صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جان کی بازی ہار گئے۔

منگل کو صحافیوں کے تحفظ کیلیے بنائی گئی تنظیم 'کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹ'(سی پی جے) کی جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق 2012 میں گزشتہ سال کی نسبت صحافیوں کے قتل کی 42 فیصد زائد وارداتیں ہوئیں۔

سی پی جے جے نے اموات میں اس قدر اضافے کا ذمے دار شام میں جنگ، صومالیہ میں فائرنگ کے واقعات اور پاکستان میں جاری پرتشدد واقعات کو قرار دیا ہے۔

پاکستان جسے 2010 اور 2011 میں صحافیوں کیلیے خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا تھا، اس سال فہرست میں دو درجے نیچے آ گیا ہے تاہم اس کے باوجود 2012 میں بھی پاکستان میں سات صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

ان میں سے چار صحافیوں کو بلوچستان میں مارا گیا جس میں اے آر وائی ٹی وی کے نمائندے اور خضدار پریس کلب کے جنرل سیکریٹری عبدالحق بلوچ بھی شامل ہیں جنہیں ستمبر میں خضدار پریس کلب سے نکلتے وقت نشانہ بنایا گیا۔

سی پی جے کی رپورٹ میں اس سال ایک میڈیا کے حمایتی کارکن کے قتل کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اے آر وائی ٹی وی کے محمد عامر کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ پشاور میں ہونے والے پرتشدد مظاہرے کو کور کرنے کیلیے جارہے تھے۔

پشاور کے قریب واقع علاقے شبقدر میں دنیا نیوز اور وائس امریکہ کے زیر اہتمام چلنے والے پشتو ریڈیو چینل دیوا کیلیے آزادانہ طور پر(فری لانس) کام کرنے والے صحافی مکرم خان عاطف کو قتل کر دیا گیا تھا۔

طالبان نے جنوری میں ہلاک کیے گئے صحافی کے قتل کی ذمے داری قبول کر لی تھی تاہم متنازع پاک افغان بارڈر پر کوریج کرنے کے باعث انہوں نے اپنے متعدد دشمن پیدا کر لیے تھے۔

برازیل میں اس عرصے کے دوران چار صحافیوں کو قتل کیا گیا جو گزشتہ ایک دہائی میں ایک سال کے دوران قتل کیے گئے صحافیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے، اس کے ساتھ ہی برازیل میں دو سال کے دوران قتل کیے گئے جرنلسٹ کی تعداد سات ہو گئی ہے۔

ان صحافیوں نے سیاسی کرپشن کے حوالے سے رپورٹس کی تھیں اور دنیا بھر میں ایک تہائی سے زائد قتل گئے صحافیوں کی طرح انہیں بھی مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں۔

سی پی جے نے 1992 سے ریکارڈ ترتیب دینا شروع کیا ہے اور اس وقت سے اب تک 67 صحافیوں کا قتل، صحافیوں کے قتل کے حوالے سے بدترین سالوں میں سے ایک ہے۔

اب تک 2009 صحافیوں کے قتل کے حوالے سے بدترین سال گردانا جاتا ہے، اس سال 74 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا جس میں سے تقریباً نصف صحافی فلپائن کے صوبے میگوئن داناؤ میں ہونے والے قتل عام میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

سی جے پی 2012 میں قتل کیے گئے 30 مزید صحافویں کے قتل کی بھی جانچ پڑتال کر رہی ہے کہ آیا ان کی اموات پیشہ ورانہ وابستگی کی وجہ سے ہوئیں یا پھر ان کے پیچھے کچھ ذاتی وجوہات تھیں۔

دو ہزار بارہ میں اب تک صحافیوں کیلیے سب سے زیادہ خطرناک ملک شام رہا جہاں خانہ جنگی ک دوران 28 جرنلسٹ حکومت یا اپوزیشن کے ہاتھوں مارے گئے، مزید براں شام کے تنازع کی کوریج کرنے والے ایک صحافی کو لبنان سے متصل سرحد کے پاس قتل کر دیا گیا تھا۔

شام میں جاری تنازع کے دوران مرنے والے صحافیوں کی تعداد عراق جنگ کے دوران صحافیوں کی اموات کے حوالے سے بدترین سال کے قریب تر ہے جہاں 2006 اور 2007، دونوں سال 32 صحافی فرائض کی انجام دہی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

شام میں جاری تنازع کے دوران سٹیزن جرنلسٹ نے اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات کی رپورٹنگ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تاہم اس ہمت کی انتہائی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ 2012 میں کسی میڈیا کے ادارے سے منسلک نہ ہونے والے 13 سٹیزن جرنلسٹ شام میں ہلاک ہو گئے، ان میں ایک انس الترشا کی عمر صرف 17 سال تھی۔

دمشق میں سرکاری ٹی وی سنا نیوز ایجنسی کے ملکی خبروں کے ہیڈ علی عباس کو القاعدہ سے منسلک اسلامی گروپ نے قتل کر دیا تھا۔

سرکاری اخبار روزنامہ تشرین کے رپورٹر مصعب ال عبداللہ  کو اپوزیشن کی حامی ویب سائٹ کو تنازع سے متعلق خبریں اور تصاویر بھیجنے کے جرم میں شام کی سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کردیا تھا۔

دنیا بھر میں ہلاک ہونے والوں میں سے ایک بڑی تعداد یعنی 94 فیصد مقامی صحافیوں کو اپنے ملک میں فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک کیا گیا۔

دو ہزار بارہ میں چار غیر ملکی صحافیوں کو بھی قتل کیا گیا اور یہ چاروں واقعات شام میں رونما ہوئے۔

اسی سال ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سے تقریباً نصف ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے اور یہ شرح گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس طریقے سے قتل کیے گئے صحافیوں کی نسبت کم ہے جہاں 69 فیصد صحافی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے تھے۔ 2012 میں سب سے زیادہ اموات خطرناک واقعات کی کوریج کے دوران ہوئی جن میں گلی کوچوں میں ہونے والے مظاہروں کی رپورٹنگ نمایاں ہے۔

صحافیوں کے قتل کے حوالے سے ایک طویل تاریخ رکھنے والے صومالیہ میں یہ سال جرنلسٹ کیلیے سب سے اب تک زیادہ سنگین رہا جہاں 12 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، یاد رہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران صومالیہ میں قتل ہونے والے ایک بھی صحافی کا مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

دو ہزار بارہ میں قتل کیے گئے ایک تہائی سے زیادہ صحافی آن لائن جرنلزم سے وابستہ تھے اور گزشتہ سال کی نسبت اس میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، 2011 میں قتل کیے گئے 1/5 صحافی آن لائن جرنلزم سے وابستہ تھے جبکہ سی پی جے کے اعدادوشمار کے مطابق یہ اب تک ایک سال کے دوران ہلاک کیے گئے آن لائن جرنلسٹ کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

دوسری جانب اخباری صحافت سے وابستہ صحافیوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے جو 31 فیصد تک گر گئی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سے نصف سے زائد اخباری صحافت سے وابستہ تھے۔ جبکہ 2012 میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر صحافیوں کا تعلق ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے ہے۔

اس سال آزادانہ طور پر کام کرنے والے صحافیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 28 فیصد ہے جو گزشتہ سال کے برابر ہے۔

دو ہزار بارہ میں نشانہ بنائے گئے صحافیوں میں سے زیادہ تر جنگ، سیاست اور انسانی حقوق کی خبروں کی کوریج کرتے تھے۔

رواں سال ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سے 35 فیصد کیمرہ مین اور فوٹو گرافرز تھے جو گزشتہ دو دہائیوں کی نسبت تقریباً دگنی تعداد ہے، پچھلی دو دہائیوں کے دوران تقریباً 20 فیصد رپورٹرز اور فوٹوگرافرز کو نشانہ بنایا گیا جبکہ رواں سال بھی ان لوگوں میں سے ایک تہائی شام میں کام کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہوئے۔

شام کے باہر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی جہاں دو صحافیوں کی ہلاکت کے واقعات سامنے آئے۔

بحرین میں فری لانس ویڈیو گرافر احمد اسماعیل حسن کو اصلاحات کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہرے کی فلم بندی کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔

مصر میں اخباری رپورٹر الحسینی ابو دیف کو ایک شخص نے ربڑ کی گولی مار کر ہلاک کردیا تھا اور جس کے بارے میں عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ وہ اسلامی جماعت کا حامی تھا۔

دو ہزار تین کے بعد یہ پہلی دفعہ موقع ہے جب سی پی جے کو عراق سے پیشہ ورانہ وابستگی کی بنیاد پر صحافی کے قتل کے ایک بھی واقعے کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔

سی پی جے کی رپورٹ کے مطابق ایک صحافی کو قید جبکہ ایک زیر حراست بھی ہلاک ہوا، ایران کے تنقیدی بلاگر ستار بہستی کو ملکی سالمیت کیخلاف کام کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا اور حراست کے چار دن بعد وہ ہلاک ہو گئے تھے۔

کولمبیا میں فری لانس رہورٹر گوئی لیرمو ایک مظاہرے کے دوران زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم وہ اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

عزیز الحق بادات Dec 19, 2012 04:46am
آزادی صحا فت ضرور ہونی چاھۓ، لیکن صحافیوں کو اپنی زمہ داری احسن طریقہ پر نبھانی چاھۓ اور بلیک میلنگ اور دوسرے غیر شایٔستہ تحریروں سے گریز کرنا چاھۓ۔

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025