کھیل ختم، پیسہ ہضم
مبارک، مبارک میرے پاس ایک بہت بڑی خبر ہے۔ کینو رسیلے، پکے ہوئے اور امپورٹڈ ہیں، جنت کا پھل۔'
یہ ایک ون ایکٹ پلے ہے جس کے کردار فرضی ہیں۔ ڈاکٹر تحریرالقادری اپنے بُلٹ پروف کنٹینر میں بیٹھے اسلام آباد میں موجود ایک بڑے مجمع سے مخاطب ہیں۔ یہ ان کی ریلی کا تیسران دن ہے۔ وہ خطاب کررہے ہیں کہ ایک معاون آکر ان کے کان میں سرگوشی کرتا ہے: 'سر جی، ابھی ابھی مجھے خبر ملی ہے کہ عمران خان نے لانگ مارچ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔'
یہ سنتے ہی ڈاکٹر تحریر شدید جذباتی ہوجاتے ہیں۔ وہ دونوں ہاتھ فضا میں بُلند کرتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں: 'مبارک ہو، مبارک ہو۔ میرے پاس بہت بڑی خبر ہے'
'خبر دینے والے کو احساس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر تحریر اس کی بات سمجھ نہیں سکے: 'سر سونامی خان نے آپ کو جوائن نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔'
'واقعی؟' ڈاکٹر تحریر نے کہا۔ ان کے دونوں بازو فضا میں بُلند ہی رک جاتے ہیں۔ مجمع سانس روکے منتظر ہے کہ دیکھیے ڈاکٹر صاحب کیا خوش خبری سناتے ہیں۔
'سپریم کورٹ کے متعلق کیا خبر ہے؟' انہوں نے معاون سے سرگوشی کی۔ 'کیا حکومت کے خلاف کوئی اور فیصلہ آنے والا ہے؟'
'نہیں سر۔۔۔' ساتھی نے جواب دیا۔
'اور ایم کیو ایم کے متعلق۔۔۔؟ ڈاکٹر تحریر بےچینی سے پوچھتے ہیں۔ 'کویی ایسی خبر جس کا میں اعلان کر سکوں؟
'سر۔۔۔ ایم کیو ایم نے مزید بیس درجن کینو بھیجے ہیں۔'
'بس۔۔۔'
'انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ کل مزید بیس درجن کینو بھجوادیں گے۔'
'مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کتنے درجن' یہ کہہ کر وہ گردن موڑتے ہیں۔ ان کے ہاتھ بدستور فضا میں بُلند۔ مجھے مجمع کو بتانے کے لیے کچھ تو دو، ابھی، فوراً۔۔۔'
'سر۔۔۔ کینو امپورٹڈ ہیں اور بہت ہی ذائقہ دار بھی۔'
ڈاکٹر تحریر نے نظریں مجمع پر گاڑیں: 'مبارک، مبارک میرے پاس ایک بہت بڑی خبر ہے۔ کینو رسیلے، پکے ہوئے اور امپورٹڈ ہیں، جنت کا پھل۔' یہ کہہ کر وہ ایک بار پھر اپنے ساتھی کی طرف مڑتےہیں۔ 'مجھے کچھ چاہیے یا پھر میں تمہیں فارغ کردوں۔'
معاون تھوک نگلتا ہے۔ انتہایی پریشانی میں لرزتے ہاتھوں سے ایک نمبر ملاتا ہے۔
'لاؤ، لاؤ، لاؤ۔۔۔' ڈاکٹر طاہر مٹھیاں بھینچتے اور دانت پیستے ہوئے کہتے ہیں۔
'سر۔۔' معاون نے سرگوشی کی۔ 'وہ فوج۔۔۔'
'ہاں، ہاں۔۔۔ بتاؤ، فوج سے متعلق کیا اطلاعات ہیں۔' ڈاکٹر تحریر کا تجسس عود کر آتا ہے۔ 'وہ ابھی راستے میں ہی ہیں یا ٹیک اووَر کرلیا؟ بتاؤ، جلدی بتاؤ مجھے۔۔۔۔'
'نہیں سر، لیکن وہ کرسکتے ہیں۔' وہ جواب دیتا ہے۔
'کیا مطلب تمہارا، وہ کرسکتے ہیں؟'
'سر، آپ جانتے ہیں کہ فوج ٹیک اووَر کرسکتی ہے۔۔۔'
'کب؟'
'سر، آج، کل، اگلے سال، دو سال، بیس سال، پچاس۔۔۔'
'کیا بکواس کررہے ہو تم؟' ڈاکٹر تحریر معاون پر دبے دبے انداز میں چلاتے ہیں۔ 'الطاف بھائی کو فون لگاؤ۔'
'سر، میں نے فون کیا تھا۔ وہ حکومت کے ساتھ میٹنگ میں ہیں۔'
'حکومت کے ساتھ؟ لیکن کیوں؟'
'سر، ان کی پارٹی حکومت کا حصہ ہے۔'
'مجھے کینوؤں سے نفرت ہے۔' ڈاکٹر تحریر میز پر مُکّہ مارتے ہوئے چیختے ہیں۔
'یس سر۔'
اب فون نہ کرنا اور یہ بات بتادینا انہیں۔'
'بالکل ٹھیک، بتادوں گا۔ اور کچھ؟
'مجھے مجمع سے کچھ کہنا ہے۔ محکمہ موسمیات کو فون کرو۔ پوچھو اُن سے کہ آج بارش کا کوئی امکان ہے۔'
معاون فون ملانے لگتا ہے۔ ڈاکٹر تحریر رخ مجمع کی طرف رتے ہیں۔ 'تو مبارک ہو، مبارک ہو! کینو۔۔۔۔ بڑے بڑے، رسیلے کینو اور فوج۔ ہاں ہماری عظیم، محبِ وطن، جمہوری فوج۔ آج، کل، دو سال، بیس سال، پچاس۔۔۔'
یہ کہہ کو وہ خاموش ہوئے اور معاون کی طرف گردن موڑی۔ 'کیا بتایا انہوں نے، آج بارش ہوگی؟'
'سر۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہلکی بارش کا کوئی تیس فیصد امکان ہے۔'
ڈاکٹر تحریر نے پھر رخ مجمع کی طرف موڑا۔ 'ہاں، جیسا کہ میں کہہ رہا تھا۔ خوش خبری۔ کینو، فوج، آج، کل، بیس سال، پچاس سال اور بارش۔۔۔ لوگو، کیا یہ سنا تم نے؟ بارش کا تیس فیصد امکان ہے۔'
مجمع خاموش تھا۔
معاون جھکا اور ایک بار پھر اپنے ہونٹ ڈاکٹر تحریر کے کان کے قریب کیے: 'سر، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ وہ پرائم منسٹر کیس پر خود نظر رکھیں گے۔۔۔'
'لیکن یہ تو ہم نے کل ہی اعلان کردیا تھا۔ میں آج کے اعلان کے لیے کچھ نیا چاہتا ہوں۔'
'سر۔۔۔ سپریم کورٹ نے صدر کی گرفتاری کے لیے پولیس کو آرڈر جاری کردیا ہے۔'
'واقعی۔۔۔ آج؟
'سر۔۔۔ آج، کل، دو سالوں میں، بیس، پچاس۔۔۔'
او بے وقوف۔۔۔' وہ مڑے۔ 'میرا خیال ہے کہ مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔' انہوں نے سر ہلاتے ہوئے خود کلامی کی۔
جیسے ہی انہوں نے اوپر اٹھے ہاتھ نیچے کیے، معاون تیزی سے اُن کی طرف بڑھا۔ وہ پُرجوش نظر آرہا تھا۔ اس نے فون بند کیا اور ایک بار جھک کر ڈاکٹر تحریر کے کان میں سرگوشی کی: 'سر، سر۔۔۔ خوش خبری۔'
'کیا، کیا؟
'سر، ایم یو کیو نے ریلی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔'
'کیا؟'
'سر، ایم یو کیو نے ہمارے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔'
'او بے وقوف، ایم یو کیو تو میری اپنی پارٹی ہے۔'
'اوہ۔۔۔ یہ تو درست ہے، ہی ہی ہی۔ سوری سر۔۔۔'
'کوئی ہے جو اسے یہاں سے کہیں دور لے جائے۔' ڈاکٹر تحریر نے بری طرح چلاتے ہیں۔ 'مجھے نئی کھس پھسریا چاہیے۔'
ایک نیا معاون آگے بڑھتا ہے۔ 'سر بڑی خبر۔۔۔'
'کیا؟ جلدی بتاؤ مجھے۔ سونامی آرہا ہے؟ الطاف بھائی نے کچھ کہا ہے، ٹینک چل پڑے، چیف جسٹس پاکستان گرجے۔۔۔ کیا؟'
'نہیں سر، لیکن بارش ہونے والی ہے۔'
'احمق۔۔۔ یہ بات تو میں پہلے ہی جانتا ہوں۔'
'نہیں سر، اس بار ساٹھ فیصد چانسز ہیں۔'
یہ ہوئی نہ بات۔۔۔' ڈاکٹر تحریر نے گردن موڑی۔ ان کی ٹوپی ہل کر رہ گئی۔ مجمع میں بھنبھنابٹ ہورہی تھی: 'مبارک ہو، مبارک ہو۔۔۔'
اسی دوران موبائل فون کان سے لگائے معاون آگے بڑھا اور فون ان کی طرف بڑھایا۔
'کیا ہوا؟ کیا حکومت تحلیل کردی گئی؟' ڈاکٹر تحریر نے پوچھا۔
'نہیں سر۔۔۔ یہ آپ کے لیے ہے۔' معاون نے فون ڈاکٹر تحریر کو تھماتے ہوئے کہا۔
'ہیلو۔۔۔'
دوسری طرف سی کسی نے کہا 'کھیل ختم۔۔۔' اور لائن کٹ گئی۔
ترجمہ: مختار آزاد
تبصرے (3) بند ہیں