• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سوشل میڈیا قواعد: حکومت یا کوئی اور تنقید سے بالاتر نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ

شائع December 4, 2020
چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی اے تنقید کی حوصلہ افزائی کرے—فائل/فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی اے تنقید کی حوصلہ افزائی کرے—فائل/فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو سوشل میڈیا رولز پر اٹھائے گئے اعتراضات کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنقید آزادی اظہار کا اہم جزو ہے اس لیے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کے بنائے گئے سوشل میڈیا رولز سے متعلق درخواست پر سماعت کی اور سوالات اٹھاتے ہوئے پی ٹی اے کو پاکستان بار کونسل کے اعتراضات کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کردی۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا قواعد نافذ، اسٹیک ہولڈرز کی شدید مخالفت

پی ٹی اے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران ادارے کے وکیل کو بھارت کی مثال دینے سے روک دیا اور کہا کہ یہاں بھارت کا ذکر نہ کریں کیونک ہم اس حوالے سے بڑے واضح ہیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اگر بھارت غلط کر رہا ہے تو ہم بھی غلط کرنا شروع کریں، ایسے رُولز بنانے کی تجویز کس نے دی اور کس اتھارٹی نے انہیں منظور کیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر سوشل میڈیا رُولز سے تنقید کی حوصلہ شکنی ہو گی تو یہ احتساب کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

پی ٹی اے کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ تنقید کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ حوصلہ شکنی، حکومت ہو یا کوئی اور قانون اور تنقید سے بالاتر نہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے تنقید کی حوصلہ افزائی کرے کیونکہ یہ اظہار رائے کا اہم ترین جزو ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا کو ’کنٹرول‘ کرنے کا حکومتی اقدام عدالت میں چیلنج

انہوں نے کہا کہ تنقید سے کوئی کیوں خوف زدہ ہو، ہر ایک کو تنقید کا سامنا کرنا چاہیے یہاں تک کہ عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو سکتی ہے صرف شفاف ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان بار کونسل کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رولز کی کچھ شقوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ آئین سے متصادم ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ پاکستان بارکونسل کا کام ہے اور وہ وکلا کی نمائندہ تنظیم ہے۔

پی ٹی اے حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل اور اسلام آباد بار کونسل سمیت سب کو تجاویز کے لیے خطوط لکھے گئے تھے جبکہ عدالت نے وکیل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت میں مطمئن کریں کہ مذکورہ رولز آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم نہیں ہیں۔

'عدالتی فیصلے پر تنقید سے توہین نہیں ہوتی'

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالت احتساب سے کیوں ڈرے، نہ تو کوئی قانون سے بالاتر ہے اور نہ ہی تنقید سے بالاتر ہے لیکن جب آپ سقم چھوڑیں گے تو مسائل بھی ہوں گے اور پاکستان بار کونسل کے اعتراضات مناسب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ رولز بھی مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کر رہے ہیں، جب عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو اس پر تنقید سے توہین عدالت بھی نہیں ہوتی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: سوشل میڈیا قواعد کے خلاف درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری

چیف جسٹس نے پی ٹی اے کے وکیل سے کہا کہ ایک چیز یاد رکھیں، یہاں ایک آئین اور جمہوریت ہے اور جمہوریت کے لیے تنقید بڑی ضروری ہے، اکیسویں صدی میں تنقید بند کردیں گے تو نقصان ہو گا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی اے سے دوبارہ جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے رواں برس 28 جنوری کو سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اس اقدام کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ 1948 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور شدہ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے مطابق آزادی اظہار رائے ہر ایک کا حق ہے، اس حق میں بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے اور سرحدوں سے قطع نظر کسی بھی میڈیا کے ذریعے غیر جانبدار معلومات وصول کرنا شامل ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ معاشرے میں آزادانہ روابط رکھنے کی آزادی کا معیار معاشرے کی ترقی کے ساتھ جمہوریت اور معاشرے کی مضبوطی پر گہرا اثر رکھتا ہے، سیاسی تناظر میں آزادی رائے ہر قسم کے سیاسی مسائل پر بات کرنے کے لیے شہریوں کا قابلِ تنسیخ حق ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ ’آئین پاکستان دفعہ 19 کے تحت شہریوں کو بنیادی اؔزادی رائے کی ضمانت دیتا ہے اور صرف ’قانون کے تحت نافذ‘ پابندیوں کی اجازت دیتا ہے۔

درخواست میں دیگر ممالک کے سوشل میڈیا قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ کسی قابل ذکر جمہوری ملک میں سخت میڈیا پالیسی نافذ نہیں، کسی ملک میں شاید ہی کوئی ایسا جامع قانون موجود ہے جو سوشل میڈیا کے تمام پہلوؤں کو ریگولیٹ کرتا ہو تاہم صنعت میں سرکاری عناصر کے حوالے سے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024