• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

برطانیہ: سابق وزیراعظم نواز شریف کی ویزے میں توسیع کی درخواست مسترد

شائع August 5, 2021
نواز شریف کا پاکستانی پاسپورٹ 16 فروری کو ختم ہوچکا ہے—فائل/فوٹو: اے ایف پی
نواز شریف کا پاکستانی پاسپورٹ 16 فروری کو ختم ہوچکا ہے—فائل/فوٹو: اے ایف پی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ برطانوی حکام نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ویزے کی توسیع سے معذرت کرلی ہے۔

ترجمان مسلم لیگ (ن) مریم اورنگ زیب نے تصدیق کرتے ہوئے نواز شریف کے برطانیہ میں قیام سے متعلق اہم بیان میں کہا کہ ‘برطانوی محکمہ داخلہ نے قائد نوازشریف کے ویزے میں مزید توسیع سے معذرت کی ہے’ ۔

مزید پڑھیں: نواز شریف علاج کیلئے ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن پہنچ گئے

انہوں نے کہا کہ ‘برطانوی محکمہ داخلہ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ نوازشریف اس فیصلے کے خلاف امیگریشن ٹریبیونل میں اپیل کرسکتے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘نوازشریف کے وکلا نے برطانوی امیگریشن ٹریبیونل میں اپیل دائر کردی ہے اور اس اپیل پر فیصلہ ہونے تک محکمہ داخلہ کا حکم غیر مؤثر رہے گا’۔

مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ ‘اپیل پر فیصلہ ہونے تک نوازشریف برطانیہ میں قانونی طورپر مقیم رہ سکتے ہیں’۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے ٹیلی فون پر نوازشریف سے رابطہ کیا اور ہوم آفس کے فیصلے سے متعلق بات چیت کی، نوازشریف نے انہیں ہوم آفس کے فیصلے پر قانونی کارروائی سے متعلق آگاہ کیا’۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘نوازشریف نے بتایا کہ ان کے وکلا نے ہوم آفس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی ہے اور اپیل میں طبی وجوہات اور علاج کی بنا پر برطانیہ میں قیام کی وجوہات بیان کی گئی ہیں’۔

مسلم لیگ (ن) نے بتایا کہ ‘شہبازشریف نے نوازشریف سے اصرار کیا کہ وہ مکمل علاج اور ڈاکٹروں سے اجازت ملنے تک برطانیہ میں ہی قیام کریں، قوم اور پارٹی کو آپ کی صحت وسلامتی سب سے زیادہ عزیز اورمقدم ہے’۔

صدر پاکستان مسلم لیگ(ن) نے نواز شریف کو بتایا کہ ‘پوری قوم اور پارٹی آپ کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہے’۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے نجی ٹی وی ‘جیو نیوز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا پاسپورٹ 16 فروری کو ختم ہوچکا ہے اور انہوں نے درخواست نہیں دی، وہ اب پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو برطانیہ سے اللہ ہی لاسکتا ہے، شیخ رشید

انہوں نے کہا کہ اگر وہ پاکستان آنا چاہیں تو 24 گھنٹوں میں پاسپورٹ مل سکتا ہے، صرف سفارت خانہ ان کو پاکستان آنے کے لیے این او سی جاری کر سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ اکتوبر 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور وہ علاج کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے۔

نواز شریف عدالتوں سے طبی بنیاد پر ضمانت کے بعد 19 نومبر 2019 سے علاج کے لیے لندن میں مقیم ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت نے انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاج کی غرض سے ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔

اسے قبل 21 اکتوبر کو نیب کی تحویل میں چوہدری شوگر ملز کیس کی تفتیش کا سامنا کرنے والے نواز شریف کو صحت کی تشویش ناک صورت حال کے باعث لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی کہ ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں ہیں اور ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز تھے بعدازاں اس بورڈ میں مزید ڈاکٹروں اور ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔

میڈیکل بورڈ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے مرض کی ابتدائی تشخیص کی تھی اور بتایا تھا کہ انہیں خلیات بنانے کے نظام خراب ہونے کا مرض لاحق ہے تاہم ڈاکٹر طاہر شمسی نے مزید تفصیلات فرہم کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کی بیماری کی تشخیص ہوگئی ہے، ان کی بیماری کا نام ایکیوٹ امیون تھرمبو سائیٹوپینیا (آئی ٹی پی) ہے جو قابلِ علاج ہے۔

دوسری جانب ان کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے 24 اکتوبر 2019 کو العزیزیہ ریفرنس میں ان کی طبی بنیادوں پر ان کی سزا معطلی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ جبکہ چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'نواز شریف واپس آنا چاہیں تو ایمرجنسی ٹریولنگ ڈاکیومنٹ جاری کیا جاسکتا ہے'

لاہور ہائی کورٹ میں میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ سابق وزیراعظم کی حالت تشویشناک ہے جبکہ نیب نے بھی علاج کی صورت میں بیرونِ ملک روانگی سے متعلق مثبت رد عمل ظاہر کیا تھا جس پر عدالت نے ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانت مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی 26 اکتوبر 2019 کو العزیزیہ ریفرنس میں 3 روز کی ضمانت منظور کرلی تھی جس کی 29 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا گیا تھا جبکہ مزید مہلت کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

بعدازاں 5 نومبر کو صحت بہتر ہونے کے بعد نواز شریف کو سروسز ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی اور وہ 6 نومبر کو اپنی رہائش گاہ جاتی امرا روانہ ہوئے جہاں انہیں گھر میں قائم آئی سی یو میں رکھا گیا تھا۔

صحت کے حوالے سے ڈاکٹر محمود ایاز نے بتایا تھا کہ نواز شریف کی طبیعت میں بہتری ہے تاہم پلیٹلیٹس میں بار بار کمی کے دیگر اسباب جاننے کے لیے جینٹیک ٹیسٹ ضروری ہیں جو پاکستان میں ممکن نہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف بیرون ملک سفر کرسکتے ہیں۔

عدالتوں سے ریلیف ملنے کے بعد سابق وزیراعظم کا نام سفری پابندی کی فہرست ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ درپیش تھا جس کے لیے شہباز شریف نے 8 نومبر کو وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی جس نے نیب کی رضامندی طلب کی تھی۔

بعدازاں 11 نومبر کو وزارت داخلہ کے پاس تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی اور اسی دن نوٹس جاری کیا گیا، 12 تاریخ کو کابینہ کو بریفنگ دی اور انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔

جس کے بعد حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا جس کے تحت روانگی سے قبل انہیں 7 ارب روپے کے ضمانتی بانڈز جمع کروانے تھے۔

تاہم حکومت کی جانب سے عائد کی گئی شرط پر بیرونِ ملک سفر کی پیش کش کو قائد مسلم لیگ (ن) نے مسترد کردیا تھا۔

اسی دوران شہباز شریف نے 14 نومبر کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی رپورٹ پر جس کو شک ہے وہ عدالت میں میرا سامنا کرلے، ڈاکٹر طاہر شمسی

درخواست میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت کی جانب سےنواز شریف کا نام ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط رکھی جا رہی ہیں، عدالت وفاقی حکومت کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے۔

بعدازاں اگلے ہی سماعت میں عدالت نے شہباز شریف سے سابق وزیراعظم کی واپسی سے متعلق تحریری حلف نامہ طلب کیا اور اس کی بنیاد پر نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ علاج کے لیے مزید وقت درکا ہوا تو درخواست گزار عدالت سے دوبارہ رجوع کرسکتا ہے اور میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں توسیع دی جاسکتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024