• KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:04pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:31pm
  • KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:04pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:31pm

سی پیک پر کام سست نہیں ہوا، اسد عمر کی یقین دہانی

شائع September 18, 2021
اسد عمر نے کہا کہ سیاستدانوں کو سی پیک پر بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے — فوٹو: اے پی پی
اسد عمر نے کہا کہ سیاستدانوں کو سی پیک پر بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے — فوٹو: اے پی پی

وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کی جانب سے 'سی پیک' کی مخالفت اور افغانستان میں حالیہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں سیکیورٹی خطرات بڑھے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک اتھارٹی خالد منصور کے ساتھ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ سیکیورٹی کا خطرہ بڑھ یا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ دنیا کی بعض طاقتوں کو کھٹکتا ہے، افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے بھی سیکیورٹی کے چیلنجز سامنے آئے ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی قیادت میں حکومت، آرمی چیف اور دیگر سیکیورٹی حکام نے مؤثر اقدامات اٹھائے ہیں اور چین کے ساتھ سیکیورٹی کے انتظامات شیئر بھی کیے گئے ہیں جس نے اضافی سیکیورٹی انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں سیاستدانوں کو سی پیک پر بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، تنقید کرنے یا سفارشات پیش کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے لیکن ایسے ظاہر نہیں کرنا چاہیے جیسے منصوبہ 'بند، ختم یا تباہ' ہوگیا۔

وفاقی وزیر، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا کا حوالہ دے رہے تھے جنہوں نے دو روز قبل کہا تھا کہ چینی سفیر اور کمپنیوں نے ان سے سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار سست ہونے کی شکایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک پر کام کی سست رفتار سے چینی کمپنیاں پریشان

سلیم مانڈوی والا کا نام لیے بغیر اسد عمر نے کہا کہ وہ تجربہ کار انسان ہیں اور ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ غیر ذمہ دارانہ گفتگو کریں گے تاہم انہیں گمراہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ امید کر رہے تھے کہ چینی سفارتخانہ بھی میڈیا کو کوئی وضاحتی بیان جاری کرے گا۔

وفاقی وزیر نے اس تاثر کو رد کیا کہ گزشتہ تین سالوں میں سی پیک منصوبوں پر کام سست ہوا ہے اور دعویٰ کیا کہ راہداری کے متعدد منصوبوں پر پی ٹی آئی حکومت کے دور میں کام مکمل ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں بجلی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبے توجہ کا مرکز رہے اور بجلی کے کئی منصوبے موجودہ حکومت نے مکمل کیے، ہماری حکومت میں 5 ہزار 864 میگاواٹ کے منصوبے مکمل ہوئے جبکہ گزشتہ حکومت میں 3 ہزار 340 میگاواٹ کے منصوبے مکمل کیے گئے تھے، جبکہ ایک ہزار 824 میگاواٹ کے منصوبوں پر کام جاری ہے جو موجودہ حکومت کی مدت کے بعد مکمل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انفرا اسٹرکچر اور روڈ کے شعبے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سی پیک کے تحت 394 کلومیٹر طویل موٹرویز اور ہائی ویز مکمل کیں، جبکہ موجودہ حکومت اب تک 413 کلومیٹر پر محیط موٹرویز اور ہائی ویز مکمل کر چکی ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ (ن) لیگ کی حکومت نے مغربی راہداری کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جو سی پیک کا دل ہے، پوری مغربی راہداری کا منصوبہ گزشتہ حکومت میں منظوری کے مرحلے تک نہیں پہنچا۔

انہوں نے بتایا کہ ڈی آئی خان ۔ ژوب روڈ (210 کلومیٹر) کا منصوبہ منظور ہو چکا ہے، کوئٹہ ۔ خضدار روڈ کا پی سی ون منظور ہوچکا ہے اور منصوبے کی فنڈنگ پہلے ہی رواں مالی سال کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں مختص کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: سی پیک کے تمام منصوبے بروقت مکمل ہوں گے، وفاقی وزیر منصوبہ بندی

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے 10 کلومیٹر طویل خضدار ۔ بسیمہ روڈ کا 67 فیصد کام مکمل کر لیا ہے، اسی طرح 146 طویل خوشاب ۔ آواران روڈ کا منصوبہ منظور ہوچکا ہے، یہ سی پیک کا اہم منصوبہ ہے جو گوادر کو سندھ سے ملائے گا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ گزشتہ دو سال کے اندر منصوبے مکمل بھی ہوئے اور نئے بھی شامل کیے گئے، ہماری حکومت آئی تو ایک بھی منصوبہ بھی صنعتی نہیں تھا، ہم نے صنعت کو سی پیک میں شامل کیا جس کے اب تین بڑے حصے شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زراعت اور صنعت سے منسلک مراحل سی پیک کا حصہ ہوں گے، زراعت کے 8 مختلف حصے ہوں گے جن کو چین اور پاکستان دونوں نے منظور کر لیا ہے، بیج کی نمو، ڈیری فارم کی نشوونما منصوبوں کا حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 سال 'پی ایس ڈی پی' پورا استعمال نہیں ہو سکا تھا، ہماری ٹیم نے ایک دہائی کے بعد پی ایس ڈی پی کا پورا استعمال کیا، جہاں سالوں سے کچھ نہیں ہو رہا تھا وہاں اربوں کے منصوبے منظور ہوئے، اگلے ماہ کراچی سرکلر منصوبہ بھی آجائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2024
کارٹون : 13 نومبر 2024