رانا شمیم کے نواز شریف سے ’براہِ راست رابطے‘ ہیں، احمد حسن رانا
گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کے بیٹے احمد حسن رانا نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے والد کے ایک عہدیدار اور وکیل کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) کے قائد اور ان کی جماعت کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں۔
رانا محمد شمیم نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار پر نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کرپشن ریفرنسز میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔
احمد حسن رانا، جو سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ ان کے والد نواز شریف کے ساتھ ’براہِ راست رابطے‘ میں ہیں بلکہ انہوں نے کورونا وبا کے پھیلاؤ سے قبل مسلم لیگ (ن) کے قائد سے ملاقات بھی کی تھی۔
نجی چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے احمد حسن رانا نے تسلیم کیا کہ ان کے والد جسٹس شمیم ماضی میں مسلم لیگ (ن) سندھ کے نائب صدر اور میموگیٹ اسکینڈل میں نواز شریف کے وکیل بھی رہے ہیں۔
شو کے دوران احمد حسن رانا نے اپنے والد کی جانب سے کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ 2018 میں نواز شریف کی حراست کے وقت خود اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رہے ہیں اور جیل میں ان سے ملاقات بھی کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے والد کی نواز شریف سے آخری مرتبہ ملاقات کورونا وائرس سے قبل برطانیہ کے دورے کے دوران ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سابق جج پر الزامات: انصار عباسی سمیت 4 افراد کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری
ان کا کہنا تھا کہ وہ (رانا شمیم) نواز شریف کے وکیل رہے ہیں اس لیے ان کے تعلقات ہیں، ان کے براہِ راست رابطے ہیں‘۔
براہ راست پروگرام کے دوران احمد حسن رانا، جسٹس شمیم کو ایک کال پر لائیو لیتے ہوئے نظر آئے تاکہ ان سے نواز شریف سے ملاقات کے بارے میں پوچھا جا سکے لیکن پھر شاہزیب خانزادہ کو بتایا کہ ان کے والد نے جواب میں ’نو کمنٹس‘ کہا ہے۔
تاہم، انہوں نے رانا شمیم کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا جس میں سابق چیف جج نے کہا تھا کہ انہوں نے کسی صحافی کو بیان حلفی فراہم نہیں کیا تھا اور ہو سکتا ہے کہ یہ لندن میں نوٹری پبلک کے دفتر سے ’لیک‘ ہوا ہو جس نے دستاویز کی تصدیق کی۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے احمد حسن رانا نے کہا کہ ان کے والد 26 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس معاملے کی آئندہ سماعت میں پیش ہوں گے۔
’بیانِ حلفی نہیں دیکھا‘
اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’آف دی ریکارڈ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے احمد حسن رانا نے اینکر کاشف عباسی کو بتایا کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ لندن کے دورے کے دوران ان کے والد ثاقب نثار کے حوالے سے کوئی بیان دیں گے، انہوں نے اصلی بیانِ حلفی نہیں صرف اس کی تصویر دیکھی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے اس بارے میں سب سے پہلے صحافی مطیع اللہ جان نے بتایا۔
مزید پڑھیں: جسٹس ثاقب نثار پر الزام، سابق جج رانا شمیم اسلام آباد ہائیکورٹ طلب
جب ان سے پوچھا گیا کہ بیان حلفی کو لندن میں کیوں نوٹرائز کروایا گیا تو انہوں نے جواب دیا ’نو کمنٹس‘۔
احمد حسن رانا کا کہنا تھا کہ اس معاملے کے حل کے لیے ’خصوصی‘ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) تشکیل دی جانی چاہیے کیوں کہ اس میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس اور گلگت بلتستان کے چیف جج شامل ہیں۔
البتہ احمد حسن رانا نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ ان کے والد نے اپنا بیانِ حلفی اعلیٰ قانونی ادارے کے پاس کیوں نہیں جمع کروایا۔
بیانِ حلفی کے لیے وقت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ انہیں کوئی تفصیل معلوم نہیں ہے اور اس بارے میں بحیثیت وکیل انہیں اپنے والد سے بات کرنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ثاقب نثار نے نواز شریف،مریم نواز کو عام انتخابات کے دوران جیل میں رکھنے سے متعلق رپورٹ مسترد کردی
احمد حسن رانا کے بیان پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما مصدق ملک نے ’اے آر وائی‘ کے شو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ ’دلچسپ اور مزاحیہ‘ لگا، انہوں نے اس معاملے کی خامیوں پر گفتگو کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ رانا شمیم کو خود اسلام آباد ہائی کورٹ کو جواب دینا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ’وسیع تناظر‘ میں دیکھا جائے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی اور احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک نے بھی ان مسائل (عدالتی معاملات میں مداخلت) کی جانب نشاندہی کی تھی۔
معاملے کا پس منظر
خیال رہے کہ 15 نومبر کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔
مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزارنے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا۔
رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنے چاہیئں، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔
مزید پڑھیں: ’پاناما جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسیوں کے نمائندوں کو چوہدری نثار، نواز شریف نے شامل کروایا‘
دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔
تاہم ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔
ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’اس وقت انہوں نے اپنی مدت میں توسیع کے متعلق شکوہ کیا جبکہ ان کی ان دعووں کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے‘۔
اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے 16 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
چنانچہ گزشتہ روز ہوئی سماعت میں رانا شمیم کے علاوہ مذکورہ بالا تینوں افراد پیش ہوئے تھے اور عدالت نے چاروں افراد کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری کرکے 7 روز میں جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔