• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

کورونا وائرس کئی ماہ تک جسم میں موجود رہنے کا انکشاف

شائع December 26, 2021 اپ ڈیٹ December 27, 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس کسی متاثرہ فرد میں داخل ہونے کے بعد چند روز میں نظام تنفس سے دل، دماغ اور لگ بھگ تمام جسمانی اعضا کے نظام تک پھیل جاتا ہے، جہاں وہ کئی ماہ تک موجود رہ سکتا ہے۔

یہ انکشاف امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹس آف ہیلھ کی تحقیق کو کورونا وائرس کے حوالے سے اب تک کا سب سے جامع تجزیہ قرار دیا جارہا ہے جس میں وائرس کے جسم اور دماغ میں پھیلنے اور تسلسل کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ وائرس نظام تنفس سے ہٹ کر بھی دیگر اعضا میں انسانی خلیات کے اندر اپنی نقول بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تحقیق میں انسانی جسم میں کئی ماہ تک وائرس کی موجودگی کو طویل المعیاد علامات کا ممکنہ سبب قرار دیا گیا جس سے متاثر افراد کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ وائرس کے تسلسل کو میکنزمز اور کسی بھی وائرل ذخیرے پر جسمانی ردعمل کو سمجھنے سے لانگ کووڈ سے متاثر افراد کی نگہداشت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم کام ہے، کافی عرصے سے یہ سوال ہمارے ذہنوں کو گھما رہا تھا کہ آخر لانگ کووڈ جسمانی اعضا کے اتنے زیادہ نظاموں پر اثرانداز کیوں ہوتا ہے، اس تحقیق میں اس حوالے سے کچھ روشنی ڈالی گئی ہے اور ممکنہ وضاحت کی گئی کہ آخر کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کو بھی لانگ کووڈ کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔

ماضی میں بھی مختلف تحقیقی رپورٹس میں ایسے شواہد فراہم کیے جاچکے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس پھیپھڑوں اور نظام تنفس سے ہٹ کر بھی دیگر جسمانی حصوں میں خلیات کو متاثر کرسکتا ہے۔

اس تحقیق میں 2020 میں کووڈ 19 سے ہلاک ہوجانے والے 44 مریضوں کے نمونوں اور ٹشوز پر جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

محققین نے کورونا وائرس کے آر این اے کے تسلسل کو جسم کے متعدد حصوں بشمول دماغ کے مختلف حصوں میں علامات نمودار ہونے کے کئی ہفتوں (زیادہ سے زیادہ 230 دن) بعد بھی دریافت کیا۔

اس سے بیماری کی طویل المعیاد علامات کا عندیہ ملتا ہے جیسا خسرہ کے وائرس سے متاثر افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔

محققین نے ان ٹشوز کو محفوظ رکھنے کی مختلف تیکنیکس سے بھی مدد لی تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ وائرس کی موجودگی اور تعداد کی جانچ پڑتال کی جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدا میں کورونا وائرس کا سب سے زیادہ بوجھ نظام تنفس اور پھیپھڑوں کو اٹھانا پڑتا ہے، جس کے بعد یہ وائرس پورے جسم میں خلیات کو متاثر کرنے لگتا ہے۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ابتدائی مرحلے میں یہ وائرس دوران خون میں موجود ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے پورے جسم میں پھیل جاتا ہے بلکہ خون اور دماغ کے درمیان رکاوٹ کو بھی عبور کرجاتا ہے۔

ایسا ان مریضوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے جس میں بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے یا علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔

محققین نے کہا کہ پھیپھڑوں کے نظام سے باہر وائرس کی صفائی نہ ہونا ممکنہ طور پر کمزور مدافعتی ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مریض کے متعدد دماغی حصوں پر توجہ مرکوز مددگار ثابت ہوسکتا ہے اور یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ انہیں دماغی تنزلی یا ذہنی دھند اور دیگر مسائل کا سامنا کیوں ہورہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس ایسا منظم وائرس ہے جو کچھ افراد میں تو کلیئر ہوجاتا ہے مگر بیشتر میں یہ ہفتوں یا مہینوں تک موجود رہ سکتا ہے اور طویل المعیاد علامات کا باعث بن سکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ آن لائن جاری کیے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024