• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm

ایف آئی اے قانون کے مطابق کارروائی اور کسی کو ہراساں نہ کرے، اسلام آباد ہائیکورٹ

شائع April 15, 2022
عدالت نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ لوگوں کی فیملی کو ہراساں نہ کرے — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ
عدالت نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ لوگوں کی فیملی کو ہراساں نہ کرے — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سوشل میڈیا کارکنان کے گھروں پر چھاپے اور ہراساں کرنے کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کو ہدایت کی کہ کسی کو ہراساں نہ کیا جائے۔

جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے رہنما علی نواز کی جانب سے پارٹی کے سوشل میڈیا کارکنان کے گھروں پر چھاپوں کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو پی ٹی آئی سوشل میڈیا کارکنوں کو ہراساں کرنے سے روک دیا

دوران سماعت تحریک انصاف ورکرز کے وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے تین ورکرز لاہور میں اٹھائے تھے جنہیں جوڈیشل کر کے ضمانت کروا رہے ہیں۔

فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ اگر کوئی غیر قانونی کام ہوا تو ہم عدالتی اوقات کے بعد بھی عدالت سے رجوع کریں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر آپ پوچھتے ہیں کہ رات کو عدالت کیوں لگی تو یہ 2019 کا نوٹی فکیشن ہے۔

فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ ہماری پارٹی لائن کلیئر ہے کہ عدلیہ یا کسی اور ریاستی ادارے کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ہماری پارٹی کا جھنڈا لگا کر ٹوئٹس کرے تو ہم ذمہ دار نہیں، اگر کسی کے خلاف الزام ہے تو انکوائری کریں، اس کے بعد تفتیش اور پھر چھاپوں کا مرحلہ آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا اپنے سوشل میڈیا کارکنوں کی مبینہ ہراسانی کے خلاف ہائی کورٹ جانے کا فیصلہ

ایف آئی اے کے نئے تعینات کردہ ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائمز یقینی بنائیں کہ کسی کو ہراساں نہ کیا جائے اور یقینی بنائیں کہ ایف آئی اے کسی کو ہراساں نہ کرے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم سے مکالمے میں کہا کہ آپ نئے آئے ہیں، عدالت کو آپ پر مکمل اعتماد ہے، اس عدالت کو آپ سے توقع ہے کہ آپ اختیارات کے غلط استعمال کو ختم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے جو بھی کرے وہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے اور ایف آئی اے نے ایس او پیز بنائے تھے ان پر بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایف آئی اے کسی کی فیملی کو ہراساں نہ کرے، قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، ایف آئی اے پہلے ہی کافی ہراساں کرتا رہا ہے لہٰذا اب آپ نے اسے ختم کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کا الزام، ملزم کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

انہوں نے کہا کہ تنقید ہو سکتی ہے مگر کسی کو اشتعال نہیں دلا سکتے لہٰذا ہم ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ کوئی مجاز افسر مقرر کریں جو آپ سے کوآرڈینیٹ کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹا رہے ہیں، اگر کوئی شکایت ہو تو ڈائریکٹر سائبر کرائم کو بتائیں، ہم نہیں چاہتے کہ یہ دوبارہ کورٹ آئیں، آپ سے پہلے جو تھے وہ کافی اس عدالت آتے تھے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایف آئی اے نے ایس او پیز بھی بنائے تھے جن پر عمل نہیں ہو رہا جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے یقین دہانی کرائی کہ اب ایس او پیز پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل ہوگا۔

عدالت نے ہدایت کی کہ ڈی جی ایف آئی اے متاثرہ فریقین کے ساتھ کوآرڈینیشن کے لیے نمائندہ مقرر کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے قانون کے مطابق کارروائی کرے اور کسی کو ہراساں نہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی ریاستی اداروں کے خلاف آن لائن مہم چلانے والوں کےخلاف کارروائی، 8 افراد گرفتار

عدالت نے ایف آئی اے کو ہدایت کے ساتھ درخواست نمٹا دی۔

خیال رہے کہ ایف آئی اے نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سکبدوش کیے جانے کے بعد فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف مہم چلانے کے الزام میں سوشل میڈیا کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔

ایف آئی اے نے پنجاب بھر سے کم از کم ان 8 افراد کو گرفتار کیا تھا جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ فوج کے خلاف مہم میں ملوث تھے۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ہم نے فوج اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانے کے الزام کے سلسلے میں لاہور، ملتان، فیصل آباد اور گجرات سمیت پنجاب کے مختلف حصوں سے تقریباً 8 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ آنے والے دنوں میں مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔

اس سے قبل پاک فوج کے فارمیشنز کے اجلاس میں سوشل میڈیا پر ادارے پر کی جانے والی حالیہ تنقید کا بھی نوٹس لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا مہم چلانے کا کیس: علی گل پیر کے وارنٹ گرفتاری جاری

ایف آئی اے کی کارروائی کے خلاف پی ٹی آئی رہنما علی نواز اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد پولیس، آئی جی پنجاب، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی ایف آئی اے سائبر ونگ کو فریق بنایا تھا۔

انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنوں کے گھروں پر غیر قانونی چھاپے مارے جارہے ہیں، کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کy گھر والوں کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کارکنان کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں اور حکمران جماعت کی ایما پر کارکنوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئی ہیں۔

علی نواز اعوان نے کہا تھا کہ اظہارِ رائے کی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے، جس سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘فوج اور سوسائٹی ’میں تقسیم سے متعلق پروپیگنڈا مہم کا نوٹس

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ پارٹی کارکنوں کو غیر قانونی طور پر ہراساں کرنا سے روکا جائے، سیاسی بنیاد پر چادر اور چار دیواری پامال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جائے، ایف آئی اے اور پولیس کی کارروائیوں کو غیر قانونی طور دیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024