فوجی قیادت کےخلاف ہرزہ سرائی: ایمان مزاری کی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر پولیس، مدعی کو نوٹس
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایمان زینب مزاری حاضر کی پاک فوج کی سینئر قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی اور دھمکیوں کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر پولیس اور مدعی مقدمہ کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار ایمان زینب مزاری حاضر اپنی وکیل زینب جنجوعہ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ درخواست میں آپ نے لکھا ہے کہ جس بیان کی بنیاد پر مقدمہ ہوا وہ غیر ارادی طور پر تھا۔
مزید پڑھیں: سینئر فوجی قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی کیس میں ایمان مزاری کی عبوری ضمانت منظور
عدالت نے ایمان زینب مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ سے استفسار کیا کہ آپ نے تو واضح لکھا ہے کہ وہ (ایمان مزاری) ذہنی دباؤ میں تھیں اور انہوں نے ایک خدشے کا اظہار کیا تھا۔
عدالت نے سوال کیا کہ آپ نے شامل تفتیش ہو کر پولیس کو یہ باتیں بتائی ہیں؟
اس پر وکیل زینب جنجوعہ نے جواب دیا کہ شامل تفتیش ہو کر پولیس کے سوالات کے جواب دیے ہیں، درخواست گزار کی ماں کو اٹھا لیا گیا تھا، وہ دباؤ میں تھیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے پاکستان آرمی کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کی تو انتشار پھیلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس بیان کے بعد تو ادارے کو اپنی شکایت بھی واپس لے لینی چاہیے تھی، ہم درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیتے ہیں۔
انہوں نے پولیس اور مدعی مقدمہ کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا اور کیس کی مزید سماعت 9 جون تک ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس کو ایمان مزاری، بلوچ طلبہ کے خلاف کیس میں گرفتاری سے روک دیا گیا
واضح رہے کہ 26 مئی کو ایمان مزاری کے خلاف دارالحکومت کے تھانہ رمنا میں سید ہمایوں افتخار، لیفٹننٹ کرنل فار جج ایڈووکیٹ جنرل، جنرل ہیڈکوارٹرز راولپنڈی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 505 (لوگوں کو مسلح افواج کے خلاف اکسانا) اور 138 (جوان کو خلاف ورزی کی ترغیب دینا) شامل کی گئی تھیں۔
بعد ازاں 27 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکیل ایمان زینب مزاری حاضر کی 9 جون تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔
ایمان زینب مزاری نے عبوری ضمانت کی درخواست ایڈووکیٹ زینب جنجوعہ کے توسط سے دائر کی تھی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی تھی۔