مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست مسترد
اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کے سابق قائم مقام اسپیکر قاسم خان سوری کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانون سازوں کے استعفوں کی منظوری کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
عدالت کا یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے مخصوص استعفوں کو منظور کرنے کے اسپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران سامنے آیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کی جانب سے کیس کی سماعت لارجر بینچ کے سامنے کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور
آج درخواست پر سماعت کے لیے فریقین کی جانب سے فیصل چوہدری ایڈووکیٹ اور عرفان قادر عدالت میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے مؤقف اپنایا کہ عدالت کے 2015 کے فیصلے سے واقف ہوں، میں سپریم کورٹ کے 2022 کے فیصلے پر دلائل دوں گا جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت آپ کو یہی رائے دیتی ہے کہ آپ سپریم کورٹ چلے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے 123 اراکین کے استعفے منظور کرلیے، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ 123 میں سے صرف 11 لوگوں کا استعفیٰ منظور کیا گیا، اسپیکر 123 ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کو قبول کریں لیکن پک اینڈ چوز پالیسی نہ اپنائیں۔
عدالت نے کہا کہ ایک بار پہلے بھی پی ٹی آئی والوں نے استعفے دیے تھے اور ظفر علی شاہ نے یہاں چیلنج کیا تھا، آپ اس عدالت کا فیصلہ پڑھیں اس کے بعد ہم آگے چلتے ہیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پارٹی کے ٹکٹ پر یہ تمام افراد منتخب ہوئے جو آپ کے سامنے ہیں، اس وقت کے قائم مقام اسپیکر نے تمام استعفیٰ منظور کر لیے تھے، قائم مقام اسپیکر قاسم سوری کا حکم عدالت کے سامنے موجود ہے، 123 میں سے کسی بھی رکن قومی اسمبلی نے قائم مقام اسپیکر کے حکم کو چیلنج نہیں کیا۔
عدالت نے کہا کہ ہر رکن اسمبلی انفرادی طور پر اسپیکر اسمبلی کے سامنے پیش ہو کر استعفے کی تصدیق کرے، یہ عدالت اسپیکر اسمبلی کو احکامات جاری نہیں کرے گی، ڈپٹی اسپیکر نے جو کیا وہ قوانین و عدالتی فیصلوں کے برخلاف تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، یہ عدالت اسپیکر کو کبھی ہدایت نہیں دے گی اور اس کی منشا اپنے فیصلے میں لکھ چکے ہیں، استعفیٰ دینے والے ہر رکن کو ذاتی طور پر اسپیکر کے پاس جانا چاہیے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 'پی ٹی آئی کے استعفے راتوں رات قبول نہیں ہوسکتے'
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے جو کیا وہ اس عدالت کے فیصلے کے بالکل خلاف تھا، یہ عدالت عوام کے منتخب نمائندوں کا احترام کرتی ہے، کیا اسپیکر نے استعفیٰ دینے والے اراکین اسمبلی کو بلا کر اپنا اطمینان کیا تھا؟
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کے وکیل عرفان قادر نے مؤقف اپنایا کہ یہ چاہتے ہیں کہ عدالت اطمینان کرے کیونکہ انہوں نے ان نمائندوں کو فریق بنا دیا ہے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ موجودہ اسپیکر نے جو استعفے منظور کیے، ان کو بلایا گیا تھا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت یا پارلیمان میں بیٹھے اشخاص اتنے اہم نہیں جتنے وہ لوگ ہیں جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، کیا تحریک انصاف نے اسپیکر کو ریپریزنٹیشن بھیجی کہ استعفی دینے والے اراکین کو بلا کر اپنا اطمینان کر لیں؟ ڈپٹی اسپیکر کے پاس استعفوں کی منظوری کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے استعفی،اسمبلی کے پارلیمانی قائدین کا اجلاس طلب
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر اسپیکر بھی ہوتا تو اس کو بھی اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہیے تھا، یہ عدالت اب بھی سابق ڈپٹی اسپیکر کو بصد احترام مخاطب کر رہی ہے، سابق ڈپٹی اسپیکر نے اس عدالت کے فیصلے کے خلاف اراکین کے استعفے منظور کیے۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ موجودہ اسپیکر نے بھی اراکین کو طلب کر کے خود کو مطمئن نہیں کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسپیکر نے خود کو مطمئن کرنے کے بعد 11 اراکین کے استعفے منظور کیے، یہ پارلیمان کی اندرونی کارروائی ہے، عدالت مداخلت نہیں کر سکتی، آپ کے استعفے دینے والے اراکین پارلیمان میں جاکر اسپیکر کو مطمئن کر دیتے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے قائم مقام اسپیکر قاسم سوری کا حکم غیر آئینی قرار دیتے دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے قائم مقام اسپیکر نے استعفوں کے حوالے سے جو نوٹی فکیشن جاری کیا تھا وہ غیر آئینی ہے۔
پی ٹی آئی وکیل نے کیس کو لارجر بینچ کے سامنے رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ اسپیکر کا کردار بڑا مشکوک ہے جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نہیں، آپ اسپیکر کے بارے میں ایسے الفاظ نہیں کہہ سکتے جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لے لیتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر واقعی اسپیکر آفس سے لیٹر آ گئے تھے تو جاکر تصدیق کر دیتے جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ یہ 11 نہیں گئے تو باقی 112 بھی تو تصدیق کے لیے نہیں گئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ تو اب چلے جائیں اور جاکر استعفوں کی تصدیق کر دیں، فیصل چوہدری نے کہا کہ پھر پہلے والے 11 کو بھی واپس بھیجیں، ان کے الیکشن کیوں ہو رہے ہیں، یہ پک اینڈ چوز کیوں کیا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل عرفان قادر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی شخص 9 نشستوں پر الیکشن لڑنے کا کہہ رہا ہے، یہ پی ٹی آئی کا فیصلہ ہے کون کہاں سے لڑے گا۔
اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے دلائل سننے کے بعد قائم مقام اسپیکر قاسم سوری کا جاری کردہ نوٹی فکیشن غیر آئینی قرار دیتے ہوئے درخواست مسترد کردی۔
اسپیکر کا عہدہ چیف جسٹس سے بھی اوپر رکھا گیا، عرفان قادر
بعد ازاں عرفان قادر کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر صاحب بہت ہی قابل احترام ہیں، اسپیکر کا عہدہ چیف جسٹس سے بھی اوپر رکھا گیا ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کی وضاحت بھی کردی ہے، عدالت نے پی ٹی آئی درخواست کو خارج کردیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو اختیار ہے وہ تعین کریں کہ انہوں نے استعفی دیے یا نہیں، اسپیکر صاحب اس پراسس کو آگے چلائیں گیے اور استعفوں کی تصدیق کریں گیے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے جہاں تک علم ہے، باقی ارکان کے استعفی ابھی پیش نہیں ہوئے، میرا اس پر مزید بات کرنا مناسب نہیں، معاملہ اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف پارلیمنٹ میں مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد 11 اپریل کو پی ٹی آئی کے تمام قانون سازوں نے اجتماعی طور پر استعفے پیش کردیے تھے۔
سابق ڈپٹی اسپیکر اور پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے قائم مقام اسپیکر قاسم خان سوری نے 15 اپریل کو پی ٹی آئی کے 123 قانون سازوں کے استعفے منظور کیے تھے۔
بعد ازاں، قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کا عمل آئندہ چند روز میں انفرادی طور پر یا چھوٹے گروپس میں بلا کر شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع نے تصدیق کی کہ پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے جمع کرائے گئے اکثر استعفے ہاتھ سے نہیں لکھے ہوئے تھے اور پی ٹی آئی کے لیٹر ہیڈ پر بھی ایک جیسا متن چھپا ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی کا پی ٹی آئی کے اجتماعی استعفوں کی تصدیق کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ سیکریٹریٹ کے عملے کو بھی کچھ ارکان کے دستخط پر شک تھا کیونکہ یہ اسمبلی کے رول پر موجود دستخط سے میل نہیں کھا رہے تھے۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے کم از کم 25 ایم این ایز نے راجا پرویز اشرف کو الگ سے خط لکھ کر ملاقات کی درخواست کی تھی تاکہ وہ وضاحت کر سکیں کہ کن حالات میں انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔
قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط اور پروسیجر رولز 2007 کے مطابق کوئی رکن اپنے ہاتھ سے لکھ کر استعفیٰ اسپیکر کو پیش کرسکتا ہے۔
27 جولائی کو اسپیکر کی جانب سے جاری فہرست کے مطابق پی ٹی آئی کے جن اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ہیں، ان میں این اے-22 مردان 3 سے علی محمد خان، این اے-24 چارسدہ 2 سے فضل محمد خان، این اے-31 پشاور 5 سے شوکت علی، این اے-45 کرم ون سے فخر زمان خان شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ
پی ٹی آئی کے دیگر اراکین میں این اے-108 فیصل آباد 8 سے فرخ حبیب، این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے اعجاز احمد شاہ، این اے-237 ملیر 2 سے جمیل احمد خان، این اے-239 کورنگی کراچی ون سے محمد اکرم چیمہ، این اے-246 کراچی جنوبی ون سے عبدالشکور شاد بھی شامل ہیں۔
اسپیکر نے خواتین کی پنجاب اور خیبرپختونخوا سے مخصوص نشستوں پر منتخب شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار کے استعفے بھی منظور کرلیے ہیں۔
قومی اسمبلی کے ترجمان نے کہا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے آئین پاکستان کی آرٹیکل 64 کی شق (1) کے تحت تفویص اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے استعفے منظور کیے ہیں۔