• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

روپے کی گراوٹ کا سلسلہ تھم نہ سکا، ڈالر کی قیمت 234 روپے 32 پیسے تک پہنچ گئی

شائع September 14, 2022
دوپہر 12 بجے مقامی کرنسی 234 روپے فی ڈالر پر ٹریڈ ہو رہی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی
دوپہر 12 بجے مقامی کرنسی 234 روپے فی ڈالر پر ٹریڈ ہو رہی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستانی روپیہ آج (بدھ کو) مسلسل نویں سیشن میں ڈالر کے مقابلے میں گراوٹ کا شکار رہا اور انٹربینک مارکیٹ میں 2.4 روپے تنزلی کے بعد ڈالر کی قیمت بڑھ کر 234 روپے 32 پیسے ہوگئی۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کے مطابق دوپہر 12 بجے مقامی کرنسی 234 روپے فی ڈالر پر ٹریڈ ہو رہی تھی، جو کل بند ہونے کی سطح سے 0.89 فیصد کم تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈالر مزید مہنگا، انٹربینک میں روپے کی قدر میں 2 روپے 10پیسے کی کمی

دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 238 روپے تک پہنچ گئی تھی۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق دن کے اختتام پر ڈالر کی قیمت 234 روپے 32 پیسے ہوگئی اور روپے کی قدر میں 1.02 فیصد گراوٹ ہوئی۔

مالیاتی ڈیٹا اور تجزیاتی پورٹل میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ امریکا میں بلند افراط زر کی وجہ سے روپیہ گر گیا جس نے بین الاقوامی کرنسی منڈیوں میں ڈالر کو تقویت دی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ روپے کو سپورٹ ملنے کی توقع ہے کیونکہ اشیا کی قیمتوں میں کمی کا رجحان جاری ہے جو ستمبر کے مہینے کے کرنٹ اکاؤنٹ بل پر دباؤ کو کم کردے گا۔

دوسری جانب فاریکس ایسوسی ایشن کے ملک بوستان نے کہا کہ ڈالر بڑھنے کی بہت سی وجوہات لیکن اس میں سب سے زیادہ بڑی وجہ سیلاب ہے جس نے تمام تجزیوں پر پانی پھیر دیا ورنہ اس سے قبل ڈالر کے نرخ گر رہے تھے اور روپیہ مستحکم ہورہا تھا، زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے تھے اور اشیا، گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہورہی تھی۔

ان کا کہنا تھا لیکن سیلاب نے تباہی مچادی جس کی وجہ سے پاکستان کا 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور حکومت نے کھانے پینے اور سیلاب زدگان کی بحالی کی اشیا مثلاً خیمے، دوائیاں وغیرہ سب کی درآمد ڈیوٹی فری کردی ہے جس کی وجہ سے درآمدی بل بہت بڑھ گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈالر ایک بار پھر مہنگا، انٹربینک میں روپے کی قدر میں ایک روپے 64 پیسے کی کمی

انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے روپے پر دباؤ ہے اور فری مارکیٹ میں بھی ڈالر کے ریٹ بڑھ رہے ہیں، اور دسمبر تک ڈیوٹی فری کی وجہ سے درآمدی بل مزید بڑھے گا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ڈیوٹی فری ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ بڑی تعداد میں اشیا منگوا کر ذخیرہ کر رہے ہیں اور دسمبر میں ڈیوٹی فری ختم ہونے کے بعد من مانی قیمتوں پر فروخت کریں گے۔

ملک بوستان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ اشیا ڈیوٹی فری آتی رہیں گی انٹربینک میں وقتی طور پر دباؤ جاری رہے گا جبکہ اوپن مارکیٹ پر بھی دباؤ زیادہ ہے جس کی وجہ یہ کہ حکومت ایران اور افغانستان سے اشیائے خورونوش منگوا رہی ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان دونوں ممالک کے بینکوں پر امریکی پابندیاں عائد ہیں چنانچہ وہ ایل سیز ڈالر میں نہیں کھول سکتے جس کی وجہ سے وہاں کے برآمد کنندگان پاکستانی درآمد کنندگان سے نقد ڈالر میں ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری، انٹربینک میں ڈالر 2 روپے 76 پیسے مزید مہنگا

ان کا کہنا تھا کہ نقد ڈالر نہ ایکسچینج کمپنی اور نہ ہی بینکس انہیں دے سکتے ہیں چنانچہ درآمد کنندگان مجبوراً بلیک مارکیٹ سے رجوع کرتے ہیں جہاں من مانی قیمتوں پر ڈالر فروخت کیا جاتا ہے جس سے اس کی طلب بڑھ رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ حکومت نے آنے جانے والے مسافروں پر غیر ملکی کرنسی ڈکلیئر کرنے کی پابندی عائد کی ہے لیکن جن لوگوں کے پاس کریڈٹ کارڈز تھے وہ آمد پر کرنسی ڈکلیئر نہیں کر رہے اور پھر بعد میں انٹربینک مارکیٹ سے ڈالر خرید رہے تھے جس کی وجہ سے ڈالر کے دو مختلف نرخ بتائے جارہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات جانے والے مسافروں کے لیے 5 ہزار درہم رکھنے کی شرط بھی زرمبادلہ کی شرح پر دباؤ میں کردار ادا کر رہی ہے۔

ملک بوستان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں توقع تھی کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قسط ملنے کے بعد ڈالر 200 سے نیچے چلا جائے گا لیکن سیلاب نے ان تمام چیزوں پر پانی پھیر دیا ہے۔'

مزید پڑھیں: انٹربینک میں روپے کی قدر میں مزید 2 روپے کی کمی

انہوں نے کہا کہ میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ضرورت سے زیادہ ڈالر اپنے خاندان کو بھیجیں تاکہ غیر ملکی زرمبادلہ زیادہ آئے، 3 ارب ڈالر اگر وہاں سے مل جائیں اور برآمدات تھوڑی بڑھ جائے تو ہم بحران سے نکل آئیں گے۔

دوسری جانب ٹریس مارک میں ریسرچ کی سربراہ کومل منصور نے کہا کہ 'دوست ممالک کے مالی امداد دینے سے پیچھے ہٹتے ہوئے خوف کا عالم ہے جبکہ بین الاقوامی بانڈز کی پیداوار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ سرمایہ کار دیوالیہ ہونے کے بڑھتے ہوئے خطرے پر غور کرنا شروع کر دیتے ہیں'۔

خیال رہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ 2 ستمبر سے مسلسل گر رہا ہے، گزشتہ ہفتے کے دوران یہ 9.2 روپے گر کر 228.18 روپے پر بند ہوا جبکہ 2 روز میں روپے کی قدر میں مزید 3.74 روپے کی کمی دیکھنے میں آئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024