• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں 51 فیصد اضافہ

شائع October 20, 2022
افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں کی خیبرپختونخوا میں واپسی کے بعد شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا— فائل فوٹو:رائٹرز
افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں کی خیبرپختونخوا میں واپسی کے بعد شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا— فائل فوٹو:رائٹرز

گزشتہ سال امریکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں اگست میں افغانستان میں طالبان کی جانب سے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان میں ایک سال کے دوران دہشت گرد حملوں میں 51 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز (پپس) کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق 15 اگست 2021 سے 14 اگست 2022 کے دوران 250 دہشت گرد حملے کیے گئے جن میں 433 افراد قتل اور 719 افراد زخمی ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے ہاتھوں سنگسار کیے جانے کا خطرہ، افغان خاتون نے خودکشی کرلی

اعدادوشمارکے مطابق اگست 2020 سے 14 اگست 2021 کے دوران ملک میں 165 دہشت گرد حملے ہوئے تھے جن میں 294 افراد قتل ہوئے جبکہ 598 افراد زخمی ہوئے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز (پپس) پیپر سیریز کی جانب سے 19 اکتوبر کو یہ اعدادوشمارجاری کیے گئے۔

ان تجرباتی مقالوں کا مقصد پاک افغان نقطہ نظر، افغان امن اور مفاہمت میں اس کا کردار کے بارے میں اسٹیک ہولڈرز کے علم میں اضافہ کرنا تھا۔

تھنک ٹینک کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت آںے کے بعد پاکستان میں سیکیورٹی کی بے یقینی صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کو مستقبل میں ایک اور دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

رپورٹ میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ طالبان حکومت افغان سرزمین میں غیرملکی دہشت گرد سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کررہی۔

مزید پڑھیں: پاکستان دہشتگردی روکنے کیلئے کابل کی طرف دیکھ رہا ہے، وزیر خارجہ

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغانستان میں غیر ملکی دہشت گرد گروپ طالبان کی فتح کو وسط ایشیا، جنوبی ایشیا اور عالمی سطح پر اپنے پروپیگنڈے کو ترغیب دینے کے لیے استعمال کررہا ہے۔

افغانستان میں اُبھرتے ہوئے اہم دہشت گرد تنظیموں میں القاعدہ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو)، مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور خراسان میں داعش (آئی ایس-کے) شامل ہیں۔

دوسری جانب افغان طالبان نے صرف خراسان میں داعش (آئی ایس-کے) کے خلاف کارروائی کی ہے کیونکہ اس گروپ نے افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کو چیلنج کیا تھا۔

اس کے علاوہ حالیہ مہینوں میں افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں کی صوبہ خیبرپختونخوا میں واپسی کے بعد شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد تقریباً 3 لاکھ سے زائد افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوئے۔

پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ سال اگست سے لے کر اب تک تقریباً 60 سے 70 ہزار افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئندہ 2 ماہ میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے، شیخ رشید

پیس اسٹڈیز میں دو مقالے شائع ہوئے جن میں پاکستان کے نقطہ نظر اور افغانستان میں ہونے والے واقعات اور پیش رفت پر مختلف نقطہ نظر کا حوالہ دیا گیا۔

پہلا مقالہ احمد علی کی جانب سے شائع کیا گیا جس میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد عسکریت پسندوں کی موجودگی اور پاکستان میں اس کے عدم تحفظ اور دہشت گردی کے حوالے سے ملک پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ۔

مقالے میں دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ردعمل کے علاوہ ملک کی پالیسی کے حوالے سے سفارشات بھی پیش کی گئیں۔

عروج جعفری کی جانب سے پیش کیے گئے دوسرے مقالے میں افغان باشندوں کے پاکستان میں داخلے اور بارڈر کنٹرول کے حوالے سے پاکستان کو درپیش مشکلات اور پالیسی کے حوالے سے ردعمل کا جائزہ لیا گیا ۔

رپورٹ میں پاکستان میں حالیہ پیش رفت سے آگاہ کیا گیا، اس میں بتایا گیا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان نے بھی مہاجرین کے داخلے پر مزاحمت کی تھی۔

تاہم پاکستان کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ ویزا پالیسی میں نرمی اور سرحد پار نقل و حرکت کی سہولت کے حوالے سے نظرثانی کرکے افغان شہریوں کی امیدوں پر پورا اُتر سکے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024