اسلام آباد ہائیکورٹ: نااہلی کے خلاف عمران خان کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوگئی ہے۔
عمران خان کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی جس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا
سابق وزیر اعظم کی جانب سے دائر درخواست میں عدالت سے آج ہی درخواست پر سماعت کرنے کی استدعا کی گئی۔
عمران خان کی درخواست پر رجسٹرار آفس کی جانب سے متعدد اعتراضات عائد کیے گئے جس میں کہا گیا کہ عمران خان نے بائیو میٹرک تصدیق نہیں کرائی اور عمران خان کے نااہلی کے فیصلے کی مصدقہ نقل درخواست کے ساتھ منسلک نہیں۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے درخواست پیر کو سماعت کیلئے مقرر کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پیر کو کیس کی سماعت کریں گے۔
بند کمروں میں فیصلوں کا زمانہ گزر چکا، فواد چوہدری
دریں اثنا سابق وزیر اطلاعات اور رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فواد چوہدری نے اسلام آباد میں میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل جو فیصلہ ہوا وہ 22 کروڑ لوگوں کے منہ پر طمانچہ تھا، بند کمروں میں فیصلوں کا زمانہ گزر چکا، پاکستان کے لوگ اپنے سامنے فیصلے ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کل عمران خان کو نواز شریف کے برابر لا کھڑا کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی، اس فیصلے کے خلاف پاکستان کے عوام کی ایک جھلک کل آپ سب نے دیکھی، عمران خان یا پارٹی کی اپیل نہیں تھی لیکن لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
انہوں نے کہا اس سطح کے قومی لیڈر کو سیاسی دھارے سے باہر کرنے کا مقصد صرف پاکستان کو کمزور کرنا ہوسکتا ہے، چیف الیکشن کمشنر اور ان کے رفقائے کار کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا فیصلہ پاکستان کے عوام نے مسترد کیا ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ گزشتہ 2 انتخابات میں شکست کے بعد ملک کو عام انتخابات کی جانب لے کر جانا چاہیے تھا لیکن سازشیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں، پاکستان کے عوام ان سازشیوں کا گلا پکڑیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو 24 گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے لیکن ابھی تک اس فیصلے کو ریلیز نہیں کیا گیا، کل سے ہم نے اس فیصلے کی کاپی کے لیے درخواست دی ہوئی ہے لیکن ابھی تک الیکشن کمیشن نے فیصلہ نہیں دیا، اگر ان کے پاس فیصلہ موجود ہی نہیں تو کل انہوں نے سنایا کیا؟
انہوں نے کہا کہ اگر بینچ کے ارکان کے دستخط نہ ہوں تو ججمنٹ بھی نہیں ہوسکتی، فارن فنڈگ کیس میں بھی یہی کیا گیا، ویب سائٹ پر فیصلہ کچھ اور تھا اور بعد میں اس میں اضافہ کردیا گیا، اس فیصلے میں بھی تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور کل جو مرضی کی چیزیں اس میں شامل نہیں کی گئی تھیں وہ شامل کی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ بددیانتی کسی ادارے کی جانب سے کیسے ہوسکتی ہے، ہم الیکشن کمیشن کی توہین نہیں کرنا چاہتے لیکن ایسے الیکشن کمیشن کا کیا جائے جس کے 5 میں سے 3 ارکان کے خلاف ریفرنس پینڈنگ ہو اور اعلیٰ عدالتیں اس کو نہ سنیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا، الیکشن کمیشن
فواد چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد میں جرائم کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے کہ لیکن الیکشن کمینش نے اتنی زیادہ تعداد میں پولیس بلا کر اپنے دفتر کی سیکیورٹی کے لیے تعینات کیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور پی ٹی آئی کی فنڈنگ کا فیصلہ ایک ساتھ کیا جائے لیکن سب گواہ ہیں کہ کسی نے سنا بھی نہیں کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کت فنڈنگ کے فیصلے کہاں گئے؟ نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف توشہ خانہ کیس بھی 10 برس سے زیرالتوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ واضح طور پر لگ رہا ہے کہ ہمیں انقلاب کی جانب جانا پڑے گا، لانگ مارچ کی تیاری کرنی پڑے گی، ہم نے حکومت اور اس سے منسلک لوگوں کو جو موقع دیا وہ ضائع کیا جارہا ہے، پاکستان کے عوام کے اپس اور کائی چارہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کو بچانے کے لیے باہر نکلیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس، الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا
انہوں نے بتایا کہ کل پارٹی کے سامنے 2 آرا تھیں، ایک رائے یہ تھی کہ کل کے احتجاج کو ہی لانگ مارچ میں تبدیل کردیا جائے، دوسری تجویز یہ طے تھی کے لانگ مارچ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہی ہونا چاہیے، پارٹی کے کور گروپ نے دوسری رائے سے اتفاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کی کال کسی بھی وقت آسکتی ہے، یہ ایک بہت بڑی تحریک کا ایک جز ہے، ان شا اللہ یہ ایک طویل تحریک ہوگی جس کے جزیات آئندہ چند روز میں آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔
پس منظر
واضح رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھراونہ طبعیت خرابی کے باعث کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔
فیصلے سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان نے توشہ خانہ کے تحائف دبئی میں فروخت کیے، وزیراعظم
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نا اہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔
یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کر دیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔
توشہ خانہ ریفرنس
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ کیس کی سماعت سے قبل پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ کیس: عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات سامنے لانے کی ہدایت
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
تبصرے (1) بند ہیں