• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

مبینہ بیٹی چھپانے کا معاملہ: عمران خان نے جواب جمع کرادیا، جج پر اعتراض

شائع February 1, 2023
سابق وزیر اعظم نے چیف جسٹس عامر فاروق پر اعتراض کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ نااہلی کی درخواست ناقابل سماعت ہے — فائل فوٹو/عمران خان انسٹاگرام
سابق وزیر اعظم نے چیف جسٹس عامر فاروق پر اعتراض کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ نااہلی کی درخواست ناقابل سماعت ہے — فائل فوٹو/عمران خان انسٹاگرام

کاغذات نامزدگی میں اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کا ذکر نہ کرنے پر نااہلی کی درخواست پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے کیس خارج کرنے کی اپیل کردی۔

گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کو اپنا جواب دینے کا ایک اور موقع فراہم کرتے ہوئے 27 جنوری تک جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

درخواست گزار نے استدعا کر رکھی ہے کہ عدالت، کاغذاتِ نامزدگی میں جھوٹ بولنے پر عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت بطور رکنِ اسمبلی نااہل قرار دے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ساجد محمود کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی، سماعت کے دوران عمران خان نے عمران خان نے تحریری جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرادیا۔

اپنے تحریری جواب میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے خلاف نااہلی کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔

جواب میں مؤقف اپنایا گیا کہ عمران خان رکن اسمبلی نہیں رہے، اسلام آباد ہائی کورٹ ٹیریان سے متعلق ڈیکلریشن کا جائزہ آئینی دائرہ اختیار میں نہیں کر سکتی، اس نوعیت کا معاملہ متعلقہ فورم پر قابل سماعت ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق پر اعتراض کرتے ہوئے عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ماضی میں عمران خان کی خلاف اس نوعیت کا کیس سننے سے انکار کر چکے ہیں اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ ایک بار جج ایک کیس سننے سے انکار کردیں تو اسی جج کا دوبارہ وہی کیس سننا غیر مناسب ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے تحریری جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کراتے ہوئے نااہلی کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کی۔

درخواست گزار کا مؤقف

درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان نے برطانیہ میں ٹیریان وائٹ کی کفالت کے انتظامات کیے لیکن اپنے کاغذات نامزدگی میں اور الیکشن لڑنے کے حلف نامے میں اس کا ذکر نہیں کیا۔

درخواست گزار کے وکیل کے طور پر پیش ہونے والے سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کی جانب سے 18 نومبر 2004 کے ڈیکلیریشن پر مشتمل اضافی دستاویز پیش کی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ میں نے یہ ڈیکلیریشن ٹیریان جیڈ خان وائٹ کی درخواست کی حمایت میں کیا ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ کیرولین وائٹ (ٹیریان کی والدہ اینا لوئیسا سیتا وائٹ کی بہن) کو ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے۔

ڈیکلیریشن میں مزید کہا گیا ہے کہ جمائما خان نے ٹیریان جیڈ کے سرپرست کے طور پر خدمات انجام دینے سے انکار کردیا تھا اور سرپرستی کے لیے کیرولین وائٹ کا نام تجویز کیا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ ٹیریان کے بہترین مفاد اور خواہش کے مطابق ہے۔

اینا لوئیسا (سیتا) وائٹ لارڈ گورڈن وائٹ کی بیٹی تھی جنہوں نے ایک بڑے صنعتی گروپ ہینسن پی ایل سی کی امریکی شاخ کی سربراہی کی۔

درخواست گزار ساجد محمود نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے سیتا وائٹ سے شادی نہیں کی کیونکہ اس کے ’نسل پرست‘ والد نے مدعا علیہ (عمران خان) کو دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے سیتا وائٹ سے شادی کی تو ان دونوں کو اس کی دولت میں سے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا۔

اس کے بعد ہی عمران خان کی ملاقات ایک اور امیر خاتون جمائما سے ہوئی اور بہت ہی کم عرصے میں اس سے شادی کرلی۔

درخواست میں ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا جن میں ٹیریان جیڈ کی تحویل جمائما کو دی گئی تھی۔

اس میں کہا گیا کہ اینا لوسیا وائٹ نے 27 فروری 2004 کی اپنی وصیت میں جمائما خان کو اپنی بیٹی ٹیریان جیڈ خان وائٹ کا سرپرست نامزد کیا تھا، بعد ازاں اسی برس 13 مئی کو سیتا وائٹ کا انتقال ہوگیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ جمائما گولڈ اسمتھ 1995 سے 2004 تک عمران خان کی شریک حیات تھیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چھپائے گئے حقائق کی تصدیق کیلیفورنیا کی ایک عدالت کی جانب کیے گئے فیصلے سے ہوئی جہاں یہ کہا گیا کہ مدعا علیہ (عمران خان) ٹیریان جیڈ کے والد ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ عمران خان ابتدائی طور پر اپنے اٹارنی کے توسط سے کارروائی میں شامل ہوئے لیکن جب انہیں خون ٹیسٹ کرانے کا کہا گیا تو وہ کیس کی پیروی سے پیچھے ہٹ گئے۔

پٹیشن میں الزام لگایا گیا ہے کہ بعد میں جب سیتا وائٹ کی بہن کیرولین وائٹ نے عدالت سے کہا کہ اسے ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے تو انہوں نے عدالت میں ڈیکلیریشن جمع کرایا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024