• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

صحافی عمران ریاض خان ایک بار پھر گرفتار

شائع February 2, 2023
—فوٹو: فیس بک/عمران ریاض خان
—فوٹو: فیس بک/عمران ریاض خان

صحافی و اینکر پرسن عمران ریاض خان کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا ہے۔

عمران ریاض خان کے وکیل میاں علی اشفاق نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران ریاض کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے گرفتار کرلیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عمران ریاض کو لاہور ائیر پورٹ سے حراست میں لیا گیا، ان پر درج مقدمے کی تفصیل نہیں بتائی جا رہیں۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی گرفتاری خلاف قانون ہے، عدالتی فورم پر مقابلہ کریں گے۔

ایف آئی اے نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) 2016 کے سیکشن 11، 20 اور 24 کے تحت عمران ریاض خان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، علاوہ ازیں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 131/109 (بغاوت پر اکسانا)، 500 (ہتک عزت کی سزا) اور 505 بھی ایف آئی آر میں شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق عمران ریاض خان کو ایک کانفرنس کے دوران اشتعال انگیز تقریر کرنے میں ملوث پایا گیا جو ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اس تقریر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے قومی اور عالمی سطح پر مزید شیئر کیا گیا۔

ایف آئی آر میں جس تقریر کے مندرجات کا ذکر کیا گیا ہے اس میں عمران ریاض خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے بطور آرمی چیف اپنی آخری تقریر میں فوج کے غیر سیاسی رہنے کے عہد پر سوال اٹھایا تھا۔

ایف آئی آر میں نشاندہی کی گئی کہ یہ معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کی یہ اشتعال انگیز ویڈیو کئی بار شیئر کی گئی اور اس ویڈیو کا ایک حصہ ایک ٹوئٹر صارف نے پوسٹ کیا جسے عمران ریاض خان نے ری ٹویٹ کیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ عمران ریاض خان کی جانب سے جان بوجھ کر عوامی سطح پر اس طرح کے اشتعال انگیز بیان عام شہریوں یا کسی بھی طبقے کے لیے خوف یا خطرے کا باعث بن سکتا ہے اور اس کے ذریعے کسی بھی شخص کو ریاست مخالف اقدامات کے ارتکاب پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات کے نتائج ریاست پاکستان کے لیے قومی اور عالمی سطح پر سنگین نتائج نکلتے ہیں۔

ایف آئی اے نے کہا کہ اس طرح ڈرانے دھمکانے والے بیانات عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کے لیے تخریبی کارروائی کے مترادف ہیں۔

بادی النظر میں عمران ریاض خان نے پیکا (2016) کے سیکشن 11، 20 اور 24 کے تحت جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

لہذا ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے جبکہ دیگر ساتھیوں (اگر کوئی ہے) کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا۔

قبل ازیں یہ اطلاعات زیر گردش تھیں کہ عمران ریاض خان گزشتہ شب بیرون ملک جانے کے لیے لاہور ایئرپورٹ پہنچے تھے جہاں انہیں بورڈنگ سے روک دیا گیا۔

دریں اثنا عمران ریاض کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’میں نے آفر کی ہے کہ اگر کسی مقدمے میں میری گرفتاری چاہیے تو ایف آئی اے کو بلوا لیں، ان شا اللہ مایوس نہیں کروں گا‘۔

ایک اور ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ ’فی الحال ایف آئی اے نے انتظار کا کہا ہے اور طاقتور لوگوں کو جگا کر مشورہ کیا جا رہا ہے کہ اب کیا کرنا ہے؟‘

بعدازاں عمران ریاض خان کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے دعویٰ کیا گیا کہ ’مجھے گرفتار کیا جائے گا‘۔

اس ٹوئٹ کے چند گھنٹوں بعد عمران ریاض خان کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ایک اور ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ ’عمران ریاض خان کو ایف آئی اے نے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے‘۔

ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ ایئرپورٹ کے عملے نے جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کیا اور عمران ریاض خان کو پچھلے دروازے سے لے گئے۔

دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ عمران ریاض خان کو ایف آئی اے نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق مکمل طور پر موجود نہیں ہیں، ایک فاشسٹ ریاست ہے جہاں قانون کی حکمرانی موجود نہیں ہے‘۔

ٹوئٹ میں شامل ویڈیو میں مبینہ طور پر سائبر کرائم آفس کے باہر کھڑے شخص کو اندر ایف آئی اے کی تحویل میں موجود عمران ریاض خان سے مکالمہ کرتے سنا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس جولائی میں بھی عمران ریاض خان کو اسلام آباد جاتے ہوئے اٹک میں درج بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا تھا، تاہم چند روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے ان کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر ضمانت منظور کر لی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024