• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

آصف زرداری پر سنگین الزامات: شیخ رشید ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر مری پولیس کے حوالے

شائع February 8, 2023
شیخ رشید کو 2 فروری کو رات گئے گرفتار کیا گیا تھا — فوٹو: ٹوئٹر
شیخ رشید کو 2 فروری کو رات گئے گرفتار کیا گیا تھا — فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق صدر آصف زرداری پر عمران خان کے قتل کی سازش کے الزام سے متعلق کیس میں سابق وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر مری پولیس کے حوالے کردیا۔

شیخ رشید کو 2 فروری کو رات گئے گرفتار کیا گیا تھا، گزشتہ روز اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی۔

وفاقی پولیس نے شیخ شید کو اسلام آباد ڈسرکٹ اینڈ سیشن جج رفعت محمود خان کی عدالت میں ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جہاں جج نے استفسار کہا کہ کیا مری پولیس کی جانب سے پہلے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی جس پر تفتیشی افسر تھانہ مری نے جواب دیا کہ پہلی بار استدعا کر رہے ہیں، اس سے پہلے نہیں کی۔

دوران سماعت شیخ رشید کے وکیل علی بخاری نے مؤقف اپنایا کہ شیخ رشید اس وقت حراست میں ہیں، راہداری ریمانڈ اور سفری ریمانڈ دو مختلف چیزیں ہیں، مری پولیس کی جانب سے راہداری ریمانڈ کی استدعا پہلے ہی مسترد ہوچکی ہے۔

انہوں نے استدلال کیا کہ شیخ رشید کہیں بھاگے نہیں جارہے، حراست میں ہیں، جوڈیشل مجسٹریٹ نے حال ہی میں شیخ رشید کے راہداری ریمانڈ کی استدعا کو مسترد کیا تھا، شیخ رشید جیل میں ہیں، کہیں باہر نہیں جاسکتے۔

تھانہ مری کے تفتیشی افسر نے کہا کہ راہداری ریمانڈ پہلے طریقہ کار مکمل نہ ہونے پر مسترد ہوا تھا، وکیل علی بخاری نے کہا کہ مری پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا، جس کی مدعیت میں مقدمہ درج ہو، وہ تفتیش نہیں کرسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کے گھر پر دھاوا بولا گیا، آئین انسانی حقوق فراہم کرتا ہے، شیخ رشید کی جانب سے 16 بار وزیر رہنے کے بیان سے کس کو خطرہ ہوگیا؟ متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ چھٹی پر ہیں، مری پولیس کل بھی راہداری ریمانڈ کی استدعا کر سکتی تھی۔

علی بخاری نے استدلال کیا کہ کیا سیکریٹری داخلہ لاہور، ڈی سی راولپنڈی یا متعلقہ انتظامیہ کو گرفتاری سے آگاہ کیاگیا؟ شیخ رشید کے گھر سے سب کچھ برآمد کرلیا، پھر راہداری ریمانڈ کیوں چاہیے؟ شیخ رشید کا اسلحہ لے گئے جس کا لائسنس موجود تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر راہداری ریمانڈ کی استدعا مسترد ہوچکی تو دوبارہ نہیں مل سکتا؟ مری پولیس نے راہداری ریمانڈ مسترد ہونے پر اپیل دائر نہیں کی، عدالت سے استدعا ہے کہ میری ضمانت لے، پہلے ریمانڈ مانگا جو مسترد ہو چکا بطور ڈیوٹی جج آپ بھی راہداری ریمانڈ کی استدعا مسترد کریں۔

اس موقع پر جج نے استفسار کیا کہ راہداری ریمانڈ مسترد ہونے کے فیصلے کی کاپی ہے؟ مری پولیس نے کہا کہ کوئی فیصلہ جاری نہیں ہوا، زبانی کلامی بات ہوئی۔

دوران سماعت شیخ رشید نے کہا کہ میری تھانہ مری میں درج مقدمے میں پیشی ہو چکی ہے، مجھ سے جیل میں تھانہ مری میں درج مقدمے میں تفتیش ہو چکی ہے۔

پراسیکیوٹر عدنان نے شیخ رشید کے راہداری ریمانڈ سے متعلق دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی عدالت سے صرف راہداری ریمانڈ کے حوالے سے معاملہ آیا ہے، شیخ رشید جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، شیخ رشید کو مری کی عدالت میں پیش کرنا ہے۔

پراسیکیوٹر عدنان نے جج سے مکالمہ کیا کہ شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ آپ راہداری ریمانڈ کی درخواست پر دلائل نہیں سن سکتیں، شیخ رشید کے وکیل علی بخاری نے وضاحت کی کہ میں نے کہا کہ شیخ رشید کے راہداری ریمانڈ پر فیصلہ متعلقہ عدالت پہلے ہی سنا چکی ہے۔

رات مجھے اہم شخصیت سے ملنے کا کہا گیا، انکار کردیا، شیخ رشید

شیخ رشید کے وکیل انتظار پنجوتھا نے راہداری ریمانڈ سے متعلق دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ شیخ رشید کی حاضری کے بغیر بھی تفتیش کی جاسکتی ہے، شیخ رشید پر مقدمہ غیر قانونی بنا گیا، شیخ رشید شریف آدمی ہے، مقدمہ ایک مذاق ہے۔

سماعت کے دوران شیخ رشید نے روسٹرم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پر جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس والے میرے بھائی ہیں، میں سولہ بار وزیر رہا ہوں، میری سیاسی ہمدردیاں بدلنا چاہتے ہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ میں نے دونوں فونز کے پاس ورڈ پولیس کو دے دیے ہیں، میں نے کبھی فوج سے لڑائی نہیں لڑی، میں فوج کا ہوں، میں عمر کے اس حصے میں اپنی ہمدردیاں نہیں بدلوں گا۔

انہوں نے بتایا کہ رات مجھے ایک اہم شخصیت سے ملنے کا کہا گیا، میں نے انکار کردیا، انہوں نے الزام لگایا کہ ایس ایچ او وڑائچ اسلام آباد میں شراب کا کاروبار کرتا ہے۔

’مری، لسبیلہ، کراچی پولیس معصوم، کام آبپارہ پولیس نے کیا‘

ان کا کہنا تھا کہ میں نے کسی پولیس والے پر گن نہیں تانی، میرے موبائل میں صحافیوں کے نمبر ہیں، اپنی جان دے دوں گا، ہمدردیاں نہیں بدلوں گا۔

سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ مری پولیس نے گھنٹوں مجھ سے تفتیش کی ہے، تمام کام آبپارہ پولیس نے کیا، میرے پیسے، موبائل اور گھڑیاں پولیس نے نکال لیں، مری، لسبیلہ اور کراچی کی پولیس تو معصوم ہے۔

ٓن کا کہنا تھا کہ میرے موبائل میں کسی بھارتی یا را کے ایجنٹ کا نمبر نہیں ہے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ایک روز کے راہداری ریمانڈ پر شیخ رشید کو مری پولیس کے حوالے کرتے ہوئے کل دوپہر 2 بجے تک متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد کچہری سے واپس جیل منتقلی کے دوران شیخ رشید نے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں گھبرانے والے دن پیدا نہیں ہوا، موت میری محبوبہ، ہتھکڑی میرا زیور اور جیل میرا سسرال ہے۔

وفاقی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس حکومت کو نیست و نابود کر دوں گا۔

شیخ رشید نے اس موقع پر انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جیل سے لڑوں یا باہر سے، الیکشن لڑوں گا اور عمران خان کے ساتھ مل کر لڑوں گا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ راشد شفیق نے میرے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے ہوں گے، میں درخواست کروں گا کہ جانچ پڑتال کے دوران مجھے طلب کیا جائے، یہ میری ہمدردیاں بدلنا چاہتے ہیں۔

شیخ رشید کی گرفتاری اور مقدمات

سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کو آصف زرداری پر عمران خان کو قتل کرنے کی سازش سے متعلق بیان پر 2 فروری کو رات گئے گرفتار کیا گیا تھا۔

رواں ہفتے کے اوائل میں پیپلز پارٹی کے ایک مقامی رہنما راجا عنایت نے شیخ رشید کے خلاف سابق صدر آصف علی زرداری پر عمران خان کے قتل کی سازش کا الزام لگانے پر شکایت درج کرائی تھی۔

شکایت گزار کی مدعیت میں تھانہ آبپارہ پولیس نے آصف زرداری پر عمران خان کو قتل کرنے کی سازش سے متعلق بیان پر مقدمہ درج کیا تھا، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 120-بی، 153 اے اور 505 شامل کی گئی تھیں۔

گرفتاری کے بعد انہیں اسی روز اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے ان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

دوسری جانب 3 فروری کو وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر شیخ رشید کے خلاف کراچی میں بھی مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

شیخ رشید کے خلاف کراچی کے موچکو، حب کے لسبیلہ اور مری کے تھانوں میں مقدمات درج کیے گئے تھے جس کے بعد ایف آئی آر کو سیل کردیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں ایک اور مقدمہ ہفتے کے روز تھانہ صدر میں پیپلز پارٹی کے کارکن کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں شیخ رشید پر امن و امان کو خراب کرنے اور جان بوجھ کر اشتعال پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024