پاکستان کا امریکی جی ایس پی پروگرام کی تجدید کا مطالبہ
پاکستان اور دیگر 26 ممالک نے امریکی قانون سازوں پر زور دیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنس (جی ایس پی) پروگرام کی تجدید کے لیے قانون سازی کو تیز کیا جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی کے تعاون سے 1971 میں تشکیل دیا گیا جی ایس پی ایسا پروگرام ہے جس کے تحت 120 ممالک سے آنے والی تقریباً 5 ہزار مصنوعات پر ٹیرف کی چھوٹ دی جاتی ہے۔
پاکستان جی ایس پی ممالک کے 27 رکنی اتحاد کا حصہ اور ان اقوام کی امریکی فہرست میں شامل ہے جنہیں اس پروگرام کے تحت ٹیرف میں چھوٹ ملتی ہے۔
ایک خط میں اس اتحاد نے امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان پر زور دیا کہ پروگرام کو دو طرفہ تعاون فراہم کریں اور اس کی تجدید کے لیے قانون سازی کو تیز کریں۔
خط پر دیگر 26 ممالک کے سفرا کے علاوہ پاکستان کے امریکا میں موجود سفیر مسعود خان نے بھی دستخط کیے۔
امریکی کانگریس کی اہم کمیٹیوں کے سربراہان اور اراکین کو بھیجے گئے خطوط میں کہا گیا کہ ’118 کانگریس کے موقع پر ہم امید کرتے ہیں جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنس کی تجدید کے لیے دو طرفہ قانون سازی کے موقع موجود ہے‘۔
امریکا کے ٹریڈ رپریزینٹیٹو کے دفتر کے مطابق جی ایس پی امریکا کا سب سے بڑا اور پرانا ترجیحی تجارتی پروگرام ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام مخصوص ممالک سے اشیا کی درآمد کے وقت ہزاروں مصنوعات پر سے ڈیوٹیز ختم کر کے معاشی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔
تاہم کانگریس کی جانب سے جی ایس پی کو دی گئی قانونی اجازت 3 دسمبر 2020 کو ختم ہوگئی تھی جس کے بعد امریکی کمپنیوں نے نرخ بڑھا دیے تھے اور ترقی پذیر ممالک سے ان کے کاروبار کرنے کی حوصلہ شکنی ہوئی تھی۔
جی ایس پی اقدامات سے متعلق ایک بریفنگ کے موقع پر سفیر مسعود خان نے کہا کہ امریکا میں ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹ تک رسائی کو بڑھانے کے لیے اس پروگرام کی تجدید انتہائی اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات کو یقینی بنانے کا ایک ذریعہ ہے جو مضبوط اقتصادی منظر نامے اور کرنسی کی علامت ہے۔
مسعود خان کا کہنا تھا کہ ’ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو امریکی منڈیوں تک بہتر رسائی دے کر پروگرام نہ صرف ان ممالک بلکہ امریکی معیشت اور کاروبار کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کے ذریعے خام مال سمیت اشیا درآمد کر کے چھوٹی اور بڑی امریکی کمپنیوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
مسعود خان نے نشاندہی کی کہ کووڈ 19 اور یوکرین میں جنگ نے سپلائی چین کو متاثر کیا ہے جس کا نتیجہ خوراک، توانائی کی قلت اور دنیا بھر میں شدید افراطِ زر کی صورت میں نکلا۔
انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کی تجدید سے معیشت کے متعدد شعبوں کی ترقی کو تیز کرنے میں مدد ملے گی اور جاری چیلنجز کی شدت کو کم کیا جاسکے گا۔