عدالتی احکامات کے بعد عورت مارچ کے منتظمین، ڈی سی لاہور مارچ کے مقام پر متفق
لاہور ہائی کورٹ کے احکامات پر عورت مارچ کے منتظمین اور ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) لاہور رافعہ حیدر نے مارچ کے مقام اور وقت پر اتفاق کرتے ہوئے عدالت کو آگاہ کردیا، جو 8 مارچ کو ہوگا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس انوار حسین نے عورت مارچ کے منتظمین کی درخواست پر سماعت کی اور دونوں فریقین کو آپس میں مشاورت سے معاملات طے کرنے کا وقت دیا تھا اور فریقین نے مشاورت کے بعد عدالت کو آگاہ کردیا۔
عورت مارچ کے منتظمین اور ڈپٹی کمشنر نے لاہور ہائی کورٹ کے احکامات پر آپس میں مشاورت کی اور اپنے فیصلے سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مارچ نادرا آفس شملہ پہاڑی سے لے کر فلیٹیز ہوٹل تک ہو گا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ عورت مارچ مذکورہ روٹ پر دوپہر 2 بجے سے شروع ہو کر شام 6 بجے تک ہوگا۔
عدالت نے کہا کہ عورت مارچ کی انتظامیہ کے سوشل میڈیا اکاونٹس پر کوئی متنازع بیان جاری نہیں ہوگا، مارچ میں آئین پاکستان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔
خیال رہے کہ عورت مارچ کی انتظامی کمیٹی نے ضلعی انتظامیہ سے 8 مارچ کو لاہور کے ناصر باغ میں ایک ریلی نکالنے اور پھر پارک کے اطراف میں مارچ کی اجازت طلب کی تھی، تاہم ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر نے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے تھریٹ الرٹ کے باعث یہ درخواست مسترد کردی تھی۔
بعد ازاں عورت مارچ کے منتظمین نے 4 مارچ کو ڈپٹی کمشنر کی جانب سے مارچ کی اجازت نہ دینے سے انکار پر معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، درخواست میں ڈپٹی کمشنر لاہور، سی سی پی او سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔
گزشتہ سماعت کے دوران جسٹس انوار حسین نے ڈی سی رافعہ حیدر اور ایس ایس پی دوست محمد کو آج عدالت طلب کیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ میں سماعت
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس انوار حسین نے ڈپٹی کمشنر لاہور رافعہ حیدر اور عورت مارچ کے منتظمین کو دوپہر 2 بجے تک ساتھ بیٹھ کر یوم خواتین کی مناسبت سے مارچ کی جگہ طے کرنے کی ہدایت کی تھی۔
آج سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جج نے ریمارکس دیے کہ ہر دفعہ یہ معاملات عدالت میں لائے جاتے ہیں۔
ڈی سی نے عدالت کو بتایا کہ اس دفعہ عورت مارچ کے لیے ناصر باغ کی درخواست دی گئی ہے، ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ لاہور میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے، رواں برس عورت مارچ کے منتظمین نے ناصر باغ میں ریلی نکالنے کی درخواست جمع کرائی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’شہر میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میچز بھی جاری ہیں جس کی وجہ سے ہر وقت کھلاڑیوں کی نقل و حرکت ہوتی ہے اور سیکیورٹی کی ضرورت ہوتی ہے، انٹیلی جنس کمیٹی کے دوسرے اجلاس میں بھی یہی نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ لاہور میں سیکیورٹی کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے‘، اس دوران سرکاری وکیل نے تجویز دی کہ مارچ لاہور پریس کلب کے باہر کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس انوار حسین نے استفسار کیا کہ ’پھر شہر میں جلسے اور جلوس کیوں نکالے جا رہے ہیں؟ جب کسی سیاسی رہنما کی پیشی ہوتی ہے تو پولیس متحرک ہو جاتی ہے‘، اس پر ڈی سی لاہور نے جواب دیا کہ گزشتہ برس عورت مارچ کے دوران تصادم ہوا تھا۔
تاہم جج نے ڈی سی کی جانب سے ریلی کی اجازت نہ دینے کے نوٹی فکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ، منتظمین کو شہر میں ’عورت مارچ‘ سے نہیں روک سکتی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ امن و امان برقرار رکھنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، عورت مارچ کے منتظمین بھی ذمہ داری لیں کہ کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا۔
جسٹس انوار حسین نے ریمارکس دیے کہ جب سیاسی جماعتیں ریلیاں نکالتی ہیں تو وہ بھی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ بیٹھتی ہیں، انہوں نے عورت مارچ کے منتظمین کو ہدایت کی کہ وہ انتظامیہ کے ساتھ بیٹھیں اور دوپہر 2 بجے تک جگہ کا تعین کرکے عدالت کو آگاہ کریں، بعد ازاں عدالت نے سماعت 2 بجے تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ عورت مارچ کے منتظمین نے درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ ڈی سی لاہور کا عورت مارچ پر پابندی کا فیصلہ غیر قانونی ہے کیونکہ عورت مارچ میں خواتین کے حقوق کی تحفظ کی بات ہوتی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ پر امن مارچ پر پابندی آئین کی خلاف ورزی ہے لہٰذا عدالت عورت مارچ پر پابندی سے متعلق ڈی سی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
عورت مارچ کے منتظمین نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ درخواست پر حتمی فیصلے تک ڈی سی لاہور کا فیصلہ معطل کیا جائے۔