• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

مبینہ بیٹی چھپانے پر نااہلی کیس: میرٹ پر دلائل دیں تو یہ 30 سیکنڈ کا کیس ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ متعلقہ عدالت میں پیشی کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے — فائل فوٹو: عمران خان فیس بک پیچ
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ متعلقہ عدالت میں پیشی کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے — فائل فوٹو: عمران خان فیس بک پیچ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کاغذات نامزدگی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کا ذکر نہ کرنے پر ان کی نااہلی کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اگر میرٹ پر دلائل دیں تو یہ 30 سیکنڈ کا کیس ہے۔

درخواست گزار نے استدعا کر رکھی ہے کہ عدالت کاغذاتِ نامزدگی میں جھوٹ بولنے پر عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت بطور رکنِ اسمبلی نااہل قرار دے۔

مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کے خلاف نااہلی کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے وکیل حامد علی شاہ جب کہ عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا اور ابوزر سلمان نیازی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پہلے آپ نے کیس قابل سماعت ہونے پر دلائل مکمل کرنے ہیں، اگر آپ میرٹ پر بھی دلائل دینا چاہتے ہیں وہ آپ کی مرضی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں ترمیم اور کیس قابل سماعت ہونے پر آرڈر جاری کر دیں گے، اگر کیس قابل سماعت ہوا تو پھر آگے چلیں گے، اگر میرٹ پر دلائل دیں تو یہ 30 سیکنڈ کا کیس ہے۔

وکیل درخواست گزار حامد علی شاہ نے کہا کہ جب عدالت نے نوٹس جاری کر دیا تو عمران خان کو میرٹ پر جواب جمع کرانا چاہیے تھا، عمران خان نے کیس کے میرٹ پر جواب جمع نہیں کرایا، عمران خان نے کیس قابل سماعت ہونے سمیت پانچ اعتراضات اٹھائے۔

حامد علی شاہ نے کہا کہ عمران خان نے اعتراض اٹھایا کہ وہ اب رکن قومی اسمبلی نہیں ہیں، کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل کیا جاچکا، عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے، عدالت نے اُس حلقے پر دوبارہ الیکشن کرانے سے روک رکھا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس کے باوجود بھی وہ دوبارہ رکن قومی اسمبلی نہیں بن جاتے، عمران خان اب اُس نشست سے تو ایم این اے تو نہیں ہیں، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان کا ایک دوسرے حلقے سے کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری ہو چکا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے بعد اگر حلف نہ لیا جائے تو پھر اسٹیٹس کیا ہو گا؟ کیا پارٹی سربراہ پبلک آفس ہولڈر ہوتا ہے؟ اس پر مطمئن کریں، یہ دونوں سوالات اہم ہیں، ان پر دلائل دیں، ایک تو الیکشن ٹربیونل میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسز کی درخواست دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل میں تو کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی، اب کیا عمران خان حلف لیے بغیر بھی پبلک آفس ہولڈر ہیں؟ وکیل حامد علی شاہ نے کہا کہ جی، ان کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کیا جا چکا ہے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس نکتے پر اب آپ نے مطمئن کرنا ہے۔

وکیل درخواست گزار نے پارٹی سربراہ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا، چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس فیصلے کا پسِ منظر کیا تھا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں بتاتا ہوں، میں اس کیس میں میاں نواز شریف کا وکیل تھا، چیف جسٹس عامر فاروق نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اچھا، مختلف اوقات میں مختلف کردار، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آئین میں رکن قومی اسمبلی یا سینیٹر کو حلف لینے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا؟

وکیل درخواست گزار حامد علی شاہ نے کہا کہ نہیں، آئین میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ چوہدری نثار اور اسحٰق ڈار کے ایسے کیسز موجود ہیں۔

دوران سماعت فیصل واڈا نااہلی کیس کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ نے موجودہ مدت کے لیے نااہل کیا جس پر وکیل نے دلائل دیے کہ اس کیس میں فیصل واڈا نے عدالت میں پیش ہو کر معافی طلب کی جس پر انہیں ریلیف ملا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر تاحیات نااہل شخص عدالت سے معافی مانگ لے تو کیا ہوگا؟ کیا یوں معافی مانگنے والا تاحیات اور معافی نہ مانگنے والا ایک مدت کے لیے نااہل ہوگا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بعد میں کسی کو یاد آئے کہ فلاں اس کا بچہ تھا۔

دوران سماعت نواز شریف، جہانگیر ترین اور خواجہ آصف نااہلی مقدمات بھی زیر بحث آئے جس پر وکیل نے کہا کہ نواز شریف نااہلی کیس میں عمران خان خود درخواست گزار تھے، عدالت کیس کی مزید سماعت کل دن 2 بجے کرے گی۔

لاہور ہائیکورٹ: عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں درج 2 مقدمات میں ضمانت کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

دوسری جانب سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی اسلام آباد میں درج 2 مزید مقدمات میں حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست آج سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہے۔

عمران خان کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں 15 روز کی حفاظتی ضمانت کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ متعلقہ عدالت میں پیشی کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے۔

لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے عمران خان کی حفاظتی ضمانتیں سماعت کے لیے مقرر کر دیں، جسٹس شہباز رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ آج سماعت کرے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز محکمہ انسداد دہشت گردی اور گولڑہ پولیس اسٹیشن میں درج 2 ایف آئی آرز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں نے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد کے باہر پولیس پر حملہ کیا اور بدامنی پیدا کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی سربراہ و دیگر رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 148، 149، 186، 353، 380، 395، 427، 435، 440 اور 506 شامل کی گئی تھیں۔

ایف آئی آرز میں الزام عائد کیا گیا کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے گاڑیوں کو آگ لگائی اور پولیس کی گاڑی سے اسلحہ اور ایک وائرلیس سیٹ چوری کر لیا۔

ایف آئی آر میں نامزد پی ٹی آئی رہنماؤں میں اسد عمر، اسد قیصر، حماد اظہر، علی امین گنڈا پور، علی نواز اعوان، مراد سعید، شبلی فراز، حسان خان نیازی، عمر ایوب خان، امجد خان نیازی، خرم نواز، جمشید مغل، عامر کیانی، فرخ حبیب، ڈاکٹر شہزاد وسیم، عمر سلطان اور عمران خان کے چیف سیکیورٹی افسر محمد عاصم بھی شامل تھے۔

عمران خان کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

دریں اثنا عمران خان کو فول پروف سیکیورٹی دینے کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عابد عزیز شیخ نے سماعت کی۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ عمران خان کے پاس آج کی تاریخ تک کوئی سیکیورٹی نہیں ہے، عمران خان کی سیکیورٹی کے بارے میں مزید 4 درخواستیں دائر کیں جن پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے سماعت کی، اس پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ آپ کے ٹی او آرز بن تو گئے تھے۔

اظہر صدیق نے کہا کہ میں سارا دن کل زمان پارک میں رہا، وہاں ایک بھی پولیس اہلکار نہیں ہے، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ میرے پاس کیس بطور سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیکیورٹی کا ہے، حکومت کہہ رہی ہے کہ سیکیورٹی موجود ہے، آپ کہہ رہے ہیں سیکیورٹی نہیں ہے۔

اظہر صدیق نے کہا کہ پرسوں پولیس والوں نے عمران خان کے گھر کے دروازے توڑ دیے، عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت بتائے کہ گھر کے باہر اور جب وہ نقل و حمل کرتے ہیں تو ان کے ساتھ کیا سیکیورٹی ہوتی ہے حکومت یہ بتائے اور انڈرٹیکنگ دے۔

بعد ازاں عدالت نے حکومتی وکلا کو ہدایات لے کر آج ہی عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دے دیا اور سماعت 12 بجے تک ملتوی کردی۔

وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی بھی عدالت میں پیش ہوئے، دوران سماعت شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے عمران خان کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی، ان کی سیکیورٹی کے لیے متعلقہ فورم پر رجوع بھی کیا ہے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ 123 پولیس اہلکار سابق وزیر اعظم کی سیکیورٹی پر مامور ہیں، سول کپڑوں اور یونیفارم میں اہلکار تعینات ہیں، باقی میں مزید نہیں جانتا۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی آپ نہیں جانتے، سرکاری وکیل نے کہا کہ اس وقت 38 سیکیورٹی اہلکار عمران خان کے ساتھ تعینات ہیں، سیکیورٹی اہلکار 3 شفٹوں میں کام کرتے ہیں’۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پولیس افسران اور سرکاری وکیل غلط بیانی کر رہے ہیں، عمران خان کے ساتھ ابھی کوئی سیکیورٹی نہیں ہے، ہمیں سیکیورٹی اہلکاروں کے نامور کی لسٹ فراہم کردیں۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیے کہ سیکیورٹی عمران خان کا قانونی حق ہے، سیکیورٹی ان کو ملنی چاہیے، وہ سابق وزیراعظم ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے عمران خان کے وکلا کو پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر ڈیوٹی پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

عمران خان کی الیکشن کمیشن کے نوٹس کےخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

ادھر عمران خان کو پارٹی سربراہی سے ہٹانے کے لیے الیکشن کمیشن کے نوٹس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہے۔

عمران خان کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس شاہد بلال حسن کی زیرِ سربراہی لاہور ہائی کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ 21 مارچ بروز بدھ عمران خان کی درخواست پر سماعت کرے گا۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس شمس محمود مرزا، جسٹس جواد حسن، جسٹس شاہد کریم اور جسٹس شہرام سرور شامل ہیں۔

واضح رہے کہ رواں برس 4 جنوری کو عمران خان نے پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹانے کے لیے الیکشن کمیشن کا نوٹس لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

سابق وزیر اعظم نے درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن دائرہ اختیار سے تجاوز کر کے الیکشن ٹربیونل کا اختیار استعمال نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر کسی رکن اسمبلی کو نااہل نہیں کر سکتا۔

درخواست میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ عمران خان کو نااہل کہنا بلاجواز اور غیر قانونی ہے، عمران خان کو پاکستان کی سیاست سے دور رکھنے کے لیے نوٹس جاری کیا گیا، آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کو کہیں بھی جھوٹا قرار نہیں دیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کیا جائے اور درخواست پر حتمی فیصلے تک نوٹس معطل کرکے الیکشن کمیشن کو عمران خان کے خلاف کارروائی سے روکا جائے۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیجا تھا۔

بعد ازاں رواں برس 31 جنوری کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024