ہر مسلمان عورت کو پاک دامن تصور کیا جانا چاہیے، وفاقی شرعی عدالت
وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) نے قرار دیا کہ ہر مسلمان عورت کو پاک دامن تصور کیا جانا چاہیے اور ’الاحسان‘ کا اسلامی تصور مسلمان مردوں کو بغیر ثبوت کے کسی عورت کے کردار پر سوال کرنے سے باز رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے ایک فیصلے میں کہا کہ پاک دامنی ایک ایسی خوبی ہے جو کسی نیک، باحیا یا کنوارے فرد کے پاس ہوتی ہے، کنوار پن پاک دامنی کی ایک مثال ہے، اسی طرح وفادار شادی شدہ جوڑے بھی پاک دامن ہونے کی مثال ہیں’۔
عدالت نے چکوال کی سائرہ رؤف کی جانب سے دائر مقدمے میں ان کے سابق شوہر محمد اسد طاہر کی درخواست پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے فیصلے کے خلاف اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’پاک دامنی کا تصور الاحسان کے تصور کے تحت ہر مسلمان عورت پر لاگو ہوتا ہے۔
سائرہ رؤف کے مطابق اسد طاہر کے ساتھ ان کی شادی 2017 میں خلع کے ذریعے ختم ہو گئی تھی، جس نتیجے میں چکوال کے ایک گارڈین جج کے سامنے ان کے 16 اور 12 سال کے دو بیٹوں کی تحویل پر قانونی چارہ جوئی کا آغاز ہوا۔
اسد طاہر نے جج کے سامنے بیان حلفی جمع کرواتے ہوئے اپنی سابقہ اہلیہ کی پاک دامنی سے متعلق الزامات لگائے۔
درخواست گزار (سائرہ رؤف) نے سیشن جج چکوال کے سامنے قذف (حد کے نفاذ) آرڈیننس 1979 کے سیکشن 8 کے تحت فوجداری شکایت درج کرائی لیکن اس نے شکایت کنندہ اور دیگر دو گواہوں کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد اسے مسترد کر دیا۔
بعد ازاں درخواست گزار کے سابق شوہر نے عدالت کے سامنے معافی مانگ لی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس نے تناؤ کی وجہ سے نازیبا الفاظ کہے تھے۔
وفاقی شریعت کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کیس کو ٹرائل کورٹ کے حوالے کرتے ہوئے 90 روز میں اس معاملے کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔
اس کے ساتھ ٹرائل کورٹ کو قذف آرڈیننس کے سیکشن 6 کے مطابق دو گواہوں کے شواہد کے ساتھ شکایت کنندہ کے بیانات ریکارڈ کرنے کو بھی کہا گیا تھا۔
وفاقی شرعی عدالت نے ٹرائل کورٹ کو اس بات کا تعین کرنے کی ہدایت کی کہ کیا قذف کا جرم، جس پر حد کے طور پر سزا دی جا سکتی ہے، کا ارتکاب ہوا ہے یا نہیں۔