• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سائفر کیس: عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع، جج کے خلاف ہائیکورٹ میں درخواست

شائع August 30, 2023
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جس دن سائفر ڈی کلاسیفائڈ ہوگیا، اس  دن سے وہ آفیشل سیکرٹ نہ رہا — فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جس دن سائفر ڈی کلاسیفائڈ ہوگیا، اس دن سے وہ آفیشل سیکرٹ نہ رہا — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کردی جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج اور کیس کی اٹک منتقلی کے خلاف درخواست دائر کردی۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے خصوصی عدالت کی جانب سے ریمانڈ میں توسیع کے فیصلے کی تصدیق کی۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کو 30 اگست تک جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں آج عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے عمران خان کے خلاف کیس کی اٹک جیل میں ساعت کی، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر وزارت قانون نے سماعت آج اٹک جیل میں کرنے کی اجازت دی۔

ایف آئی اے حکام اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کی موجودگی میں سابق وزیر اعظم کو جج کے سامنے پیش کیا گیا، عدالتی عملے نے عمران خان کی حاضری لگائی۔

ان کیمرہ سماعت کے بعد خصوصی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے جوڈیشل ریمانڈ کو 13 ستمبر تک بڑھاتے ہوئے اس میں 14 روز کی توسیع کردی۔

سماعت کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے رکن سلمان صفدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیراعظم کے خلاف کارروائی قابل مذمت ہے، یہ ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، یہ ایف آئی آر درج نہیں ہونی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اس کیس میں 15 روز قبل گرفتار کیا گیا، ان کو جوڈیشل ریمانڈ پر دے دیا گیا، ان کے وکلا اور ملزم کو بھی اس کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا، اس سے قبل کبھی اتنی خفیہ کارروائی نہیں چلائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے عمران خان کی ضمانت کی درخواست فائل کردی ہے جس کی سماعت 2 ستمبر بروز ہفتہ ہوگی، ہماری تین درخواستوں پر آج ایف آئی اے کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔

سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ درخواست ضمانت کے علاوہ ہم نے جیل ٹرائل کو چیلنج کیا ہے، ان پروسیڈنگز کو اوپن کرنے پر بھی ایف آئی اے کو نوٹس ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان پر سائفر کیس میں دو الزامات ہیں، ایک انہوں نے اسے چھپا کر رکھا ہے، دوسرا یہ کہ انہوں نے اس کا غلط استعمال کیا، میں عمران خان کا مؤقف سامنے رکھنا چاہوں گا، پہلی بات یہ ہے کہ سابق وزیر داخلہ کا بیان موجود ہے کہ اصل سائفر ہمارے پاس موجود ہے، ایف آئی اے نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے، اس بیان کے بعد مقدمہ کس بات کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سائفر کی 4 کاپیاں بنیں، ایک کاپی عمران خان کے پاس آئی جس میں قابل اعتراض مواد موجود تھا، اس میں پاکستان کے اندرونی معاملات اور سیاسی معاملات میں مداخلت تھی۔

سلمان صفدر نے کہا کہ اس سائفر کو پوری کابینہ کے سامنے رکھا گیا، اس پر بحث کی گئی، اس وقت کی حکومت نے اس کو ڈی کلاسیفائڈ کردیا، اس اجلاس کے منٹس موجود ہیں، جس دن یہ ڈی کلاسیفائڈ ہوگیا، اس دن سے وہ آفیشل سیکرٹ نہ رہا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ جب وہ سیکرٹ نہیں رہا تو یہ مقدمہ اور گرفتاری کیوں ہے، اس پر کوئی پراسیکیوشن نہیں کی جاسکتی، اس کو ڈی کلاسیفائڈ کیے جانے کے بعد اس کو قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے بھی رکھا گیا، اس پر سیکریٹری دفتر خارجہ نے ڈیمارش کیا جو کہ ایک باقاعدہ احتجاج، گلہ ہوتا ہے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب اسے کابینہ نے ڈی کلاسیفائڈ کردیا، سلامتی کمیٹی نے اس پر ڈیمارش کیا تو اس کے بعد یہ ساری پراسیکیوشن زمین بوس ہوگئی، اس پر ہم تمام قانونی حل استعمال کریں گے۔

عمران خان کی قانونی ٹیم میں شامل وکیل نعیم پنچوتھا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ عمران خان خان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کردی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزارت داخلہ کے نوٹی فکیشن کو منسوخ کرنے، اوپن ٹرائل کرنے کی درخواستیں بھی دائر کر دی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تینوں درخواستوں پر عدالت نے نوٹس کرتے ہوئے 2 ستمبر کی تاریخ دے دی ہے۔

سماعت سے قبل پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کو جیل جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ صرف ایک وکیل کو جیل کے اندر جانے کی اجازت ہے جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے تمام اراکین نے جیل کے اندر جانے پر اصرار کیا۔

بعد ازاں طویل انتظار کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کو جیل کے اندر جانے کی اجازت دے دی گئی، پولیس کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر ، انتظار پنجوتھا، نعیم پنجوتھا کو جیل کے اندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

اس کے علاوہ چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کی جانب سے ضمانت کی داخواست تیار کر لی گئی، بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ بنتا ہی نہیں، یہ اسٹیج ضمانت کی بنتی ہے، اس لیے آج ضمانت کی درخواست دائر کریں گے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ٹرائل شروع نہیں ہوا، ثبوت ٹرائل کے دوران دیے جاتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سیاسی مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔

گزشتہ روز غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل گوہر خان نے بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم کو عدالت کی جانب سے آج ہونے فیصلے کے پیش نظر گرفتار کیا گیا اور ان کی گرفتاری کی تاریخ تاحال واضح نہیں ہے۔

عمران خان کے ایک اور وکیل شعیب شاہین نے کہا تھا کہ ان کی قانونی ٹیم کو جان بوجھ کر لاعلم اور اندھیرے میں رکھا گیا، اس سے انصاف میں مداخلت واضح ہوتی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست

بعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے عدالت کی اٹک منتقلی اور جج کی اہلیت کے خلاف وکیل شیر افضل مروت کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکریٹری قانون، سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر ، آئی جی، ڈی جی ایف آئی اے، سپرنٹینڈنٹ اڈیالہ جیل اور سپرٹنڈنٹ اٹک جیل کو درخواست میں فریق بنایا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے وفاقی وزارت قانون کی جانب سے عدالت اٹک جیل منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن چیلنج کیا اور درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ عدالت اٹک جیل میں منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے لہٰذا کالعدم قرار دیا جائے۔

انہوں نے انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ون کے جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا اختیار سماعت بھی چیلنج کیا اور کہا کہ انسداد دہشت گری عدالت ون کے جج اس معاملے میں مطلوبہ اہلیت کے بنیادی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کل سماعت کے لیے مقرر کردی، جس کی کاز لسٹ بھی جاری کردی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق درخواست پر سماعت کریں گے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ ایف آئی اے نے چیئرمین پی ٹی آئی، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، رہنما اسد عمر کو سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں نامزد کرتے ہوئے 19 اگست کو شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا تھا، سابق وزیر خارجہ تاحال اس کیس میں جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں درج کی گئ۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا اور بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیرمجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے امریکی ویب سائٹ انٹرسیپٹ نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ دستاویز اس سے موصول ہوئی ہے اور اس سے شائع بھی کیا گیا تھا جبکہ سابق وزیراعظم نے ان کی حکومت کے خاتمے سے چند روز قبل ہی اس دستاویز کو عوامی اجتماع میں لہرایا تھا۔

ایف آئی اے میں درج ایف آئی آر میں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا ہے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیرقانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ایف آئی اے اس وقت اٹک جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے سفارتی سائفر کی گمشدگی پر تحقیقات کر رہی ہے، جس کو انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے ’بیرونی سازش‘ کے طور پر پیش کیا تھا۔

شاہ محمود کی گرفتاری

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پٌی ٹی آئی) نے کہا تھا کہ پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ’وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ایک بار پھر غیرقانی طور پر گرفتار ہوئے ہیں، انہیں اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے پولیس کی بھاری نفری نے گرفتار کیا‘۔

واضح رہے کہ عمران خان 5 اگست سے اٹک جیل میں قید ہیں، اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو سرکاری تحائف کی تفصیلات چھپانے سے متعلق کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔

گزشتہ روز سابق وزیراعظم کی درخواست پر سماعت کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ عمران خان کو 3 سال جیل کی سزا دی گئی ہے جو مختصر سزا کہلاتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ دونوں فریقین کی جانب سے معاملے سے جڑے گہرے معاملات پر حدود اور دیگر مسائل پر دلائل دیے گئے جو اس وقت ضروری نہیں تھے اور خاص طور پر اس وقت جب سزا مختصر ہو۔

عدالت عالیہ نے کہا کہ دونوں اطراف سے طویل دلائل دیے گئے اور چند سوالات اس فیصلے کے خلاف اپیل کے وقت پر چھوڑ دیے گئے ہیں، جو اسی وقت اٹھائے جائیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ انہی وجوہات کی بنا پر درخواست منظور کرلی جاتی ہے اور 5 اگست کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی سزا معطل کردی جاتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ سزا کی معطلی کے نتیجے میں درخواست گزار کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا گیا، جس سے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے ساتھ ضمانت سے منسلک کردیا گیا ہے جو اس عدالت کے ڈپٹی رجسٹرار (جوڈیشل) کے لیے اطمینان بخش ہو۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024