• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

9 مئی کے پرتشدد واقعات: خدیجہ شاہ کی درخواست ضمانت منظور

شائع October 18, 2023
خدیجہ شاہ کے وکیل سمیر کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ درخواست گزار 3 بچوں کی ماں ہیں، ان کی سب سے چھوٹی بچی کی عمر 5 سال ہے — فائل فوٹو: فیس بک
خدیجہ شاہ کے وکیل سمیر کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ درخواست گزار 3 بچوں کی ماں ہیں، ان کی سب سے چھوٹی بچی کی عمر 5 سال ہے — فائل فوٹو: فیس بک

لاہور ہائی کورٹ نے 9 مئی کے پُرتشدد احتجاج کے دوران جناح ہاؤس اور عسکری ٹاور حملوں سے متعلق درج مقدمات میں فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ کی درخواست بعد از گرفتاری منظور کرلی۔

واضح رہے کہ 11 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ نے فیشن ڈیزائنر کی درخواست بعد از گرفتاری پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ درخواست گزار کے بیانات میں کیا بات غیر قانونی ہے؟ جسٹس عالیہ نیلم نے پراسیکیوٹر سے پوچھا، کیا یہ الزام لگانا غیر قانونی ہے کہ ماؤں اور بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں؟

انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا کوئی ایسا ویڈیو ثبوت ہے، جس سے ثابت ہو کہ خدیجہ شاہ نے گلبرگ میں عسکری ٹاور کو توڑ پھوڑ اور نذر آتش کیا تھا۔

جسٹس عالیہ نیلم نے کہا تھا کہ سیاسی رہنما کی کال پر احتجاج کرنا معاشرتی معمول ہے، جج نے کہا کہ حکومت شہریوں کو پُرامن احتجاج کرنے سے نہیں روک سکتی۔

خدیجہ شاہ کے وکیل سمیر کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس نے انہیں بغیر کسی ثبوت کے خالصتاً سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا، درخواست گزار تین بچوں کی ماں ہیں، ان کے بچوں میں شامل پانچ سال کی سب سے چھوٹی بچی بھی شامل ہے۔

سمیر کھوسہ نے کہا کہ خدیجہ شاہ کے خلاف تمام الزامات جھوٹے ہیں جب کہ وہ کسی غیر قانونی سرگرمی یا تشدد میں ملوث نہیں تھیں، انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواستیں منظور کی جائیں اور درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔

بعد ازاں عدالت عالیہ نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے آج جاری کیا گیا جس میں خدیجہ شاہ کی ضمانت بعد از گرفتاری کی استدعا کو منظور کرلیا گیا۔

واضح رہے کہ 9 مئی کو سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی القادر ٹرسٹ کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے ملک گیر احتجاج شروع ہوگئے تھے۔

لاہور میں چند مشتعل افراد نے کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) پر حملہ کرکے وہاں توڑ پھوڑ کی اور فوجی تنصیبات نذر آتش کی تھیں، جس کے بعد حکومت نے فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی کے کئی مرکزی رہنماؤں سمیت سیکڑوں کارکنان کی گرفتاری عمل میں آئی۔

مئی کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں پہلے ہی لاہور کے 14 میں سے 12 مقدمات میں ٹرائل کورٹس میں چالان (چارج شیٹس) جمع کرا چکی ہیں، جن میں سے ایک مقدمہ کور کمانڈر ہاؤس پر حملے سے متعلق ہے۔

پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور 900 سے زائد پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو ایف آئی آر میں شامل تمام جرائم کا مجرم قرار دیا تھا، مقدمات کے مطابق پارٹی کارکنان نے عسکری ٹاور اور شادمان تھانے سمیت فوجی تنصیبات، پولیس کی گاڑیوں اور دیگر سرکاری و نجی املاک پر بڑی تعداد میں حملہ کیا۔

عدالتوں میں جمع کرائے گئے چالان میں استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ 9 مئی کو ملزمان کی زیر قیادت پرتشدد مظاہرے ریاست کے خلاف ایک طے شدہ سازش کا حصہ تھے۔

اس میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی تقاریر سمیت 400 سے زائد ویڈیو شواہد نے ثابت کیا کہ چھاؤنی کے علاقوں میں فوجی تنصیبات اور احاطے پر حملے پہلے سے طےشدہ تھے۔

ان مقدمات میں بغاوت اور ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزامات شامل کیے گئے ہیں اور چالان کے ساتھ ایف آئی اے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس بھی منسلک کی گئی ہیں، صرف کور کمانڈر ہاؤس حملہ کیس میں پارٹی رہنماؤں سمیت 368 ملزمان کے چالان کیے جا چکے ہیں۔

چالان 3 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جبکہ استغاثہ کے 210 گواہوں کی فہرست بھی مرتب کی گئی ہے، عسکری ٹاور کیس میں 65 مشتبہ افراد کو نامزد کیا گیا ہے اور ان کے خلاف الزامات کے ساتھ 55 گواہوں کی فہرست بھی جمع کرائی گئی ہے۔

گلبرگ تھانے میں درج مقدمے میں 5 ملزمان کو نامزد کیا گیا اور استغاثہ نے 36 گواہوں کی فہرست جمع کرائی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024