’قرارداد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ‘، سینئر تجزیہ کاروں کا تبصرہ
آج سینیٹ نے ملک میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی جس کے بعد الیکشن کے حوالے سے کئی شکوک و شبہات نے جنم لے لیا ہے۔
اسی معاملے پر ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ یہ عمل انتہائی افسوس ناک، شرمناک اور قابل مذمت ہے، جس طرح آج کی قرارداد کا دفاع کیا جارہا ہے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ اگر ملک کی منتخب پارلیمان انتخابات کو ملتوی کرنے کی بات کرے تو یہ حیران کن ہے۔
انہوں نے کہا کہ افنان اللہ خان نے بھرپور مخالفت کی اور ماضی کا حوالہ بھی دیا، جن لوگوں کو نظر آرہا ہے کہ وہ الیکشن میں ہار جائیں گے وہ ایسی قرارداد لا رہے ہیں، سینیٹ میں اس وقت 14 لوگ موجود تھے تو کیسے یہ قرارداد کثرت رائے سے منظور ہوئی؟ کس طریقے سے چیئرمین نے اسے منظور کیا؟ مجھے چیئرمین کا کردار بھی عجیب لگ رہا ہے، یہ قرارداد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ تمام سینیٹرز کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف قرارداد لانی چاہیے، یہ ایک سوچا سمجھا پلان تھا، یہ ایک سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے۔
’چیئرمین سینیٹ کا کردار غیر آئینی تھا‘
سینئر تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا تھا کہ صاف بات ہے کہ ایک خاص حلقے کی طرف سے یہ کوشش ہے کہ انتخابات ملتوی کروائے جائیں، جن اراکین نے یہ قرارداد پیش کی ان کا بیک گراؤنڈ دیکھ لیں، جہاں تک بلوچستان کی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا تعلق رہا ہے تو ہم سب جانتے ہیں کہ باپ پارٹی کس کے اشاروں پر چلتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہی جماعت ہے جن کے کرتا دھرتا آج ہمارے نگران وزیر اعظم بنے ہوئے ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن اس کا پروپیگنڈا ویلیو دیکھیں کہ آج ساری ہیڈلائنز اسی کی بن رہی ہے، اس کا نفسیات پر اثر پڑتا ہے، چیئرمین سینیٹ کا کردار غیر آئینی تھا، ان اراکین کی ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اینکر پرسن نادیہ نقی نے کہا کہ جب اس طرح کے آزاد امیدوار یہ قرارداد پیش کرتے ہیں تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ وہ کون سے حلقے ہیں جو انتخابات ملتوی کروانا چاہتے ہیں، آج صبح ٹربیونل نے بہت سے امیدواروں کے کاغذات منظور کیے اور پھر یہ قرارداد منظور ہوئی تو جو حالات کنٹرول کرنا چاہ رہے ہیں وہ ویسے نہیں کر پارہے اس لیے غیر آئینی شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔
اینکرپرسن عارفہ نور کا کہنا تھا کہ ہمیں سینیٹرز سے پوچھنا چاہیے کہ یہ کس قسم کی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں؟ اس سے پہلے ملٹری کورٹس کی قرارداد کے وقت بھی اتنے ہی لوگ موجود تھے اور وہ منظور ہوئی، اگر ان سب کو آئین کی خلاف ورزی کرنی ہے تو وہ سب گھر چلے جائیں، کیوں ایوان میں بیٹھے ہیں؟
’سینیٹرز توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں‘
سینئر تجزیہ کار مجاہد بریلوی نے کہا کہ اس قرارداد کی آئینی و قانونی حیثیت نہیں ہے، یہ سینیٹرز توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ انتخابات کے حوالے سے واضح پیغام دے چکی ہے، یہ عمل گیم پلانرز کی نمائندگی کرتا ہے، اگر گیم پلانرز کسی طریقے سے ان انتخابات کو ملتوی کروانا چاہتے ہیں تو وہ یہ جان لیں کہ یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ آج پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز ایوان میں نہیں تھے؟ مجھے اس کے پیچھے ان جماعتوں کے ایک حلقے کا ہاتھ نظر آتا ہے۔