برطانیہ نے انتہا پسندی کی متنازع نئی تعریف متعارف کرادی
اکتوبر میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان تنازع اور فلسطین کےحق میں احتجاج کرنے والوں کو شدت پسند قرار دینے کے بعد برطانوی حکومت کی جانب سے انتہا پسندی کی نئی تعریف متعارف کرا دی گئی، جس کے بعد حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی کمیونٹیز کے سکریٹری مائیکل گو نے انتہا پسندی کی نئی تعریف ہاؤس آف کامنز میں پیش کی۔
کنزرویٹو پارٹی کےسینئر سیاستدان مائیکل گو نے کہا کہ نئی تعریف کا مقصد برطانیہ میں اسلامو فوبیا اور یہود دشمنی کے بڑھتے ہوئے مسائل کو حل کرنا ہے۔
حکومت کا خیال ہے کہ نئی تعریف واضح اور زیادہ مخصوص ہے، جس سے وہ ایسے افراد یا گروہوں کو شناخت کرنے اور ممکنہ طور پر بلیک لسٹ کرنے مدد ملے گی جو اس تعریف پر پورا اترتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ انتہا پسندی کی سال 2011 کی تعریف بنیادی طور پر پرتشدد کارروائیوں پر مرکوز تھی، اس کے تحت فی الحال کسی بھی گروہ کی سرکاری سطح پر بطور ’انتہا پسند‘ شناخت نہیں کی گئی تھی۔
تاہم نئی تعریف افراد یا گروہ کے نظریات یا عقائد پر مرکوز ہے، چاہے وہ خود تشدد میں ملوث نہ ہوں۔
نئی تعریف کے مطابق ’انتہا پسندی تشدد، نفرت یا عدم برداشت پر مبنی نظریے کی ترویج یا ترقی ہے جن کا مقصد بنیادی حقوق اور آزادی کو تباہ کرنا ہے یا برطانیہ کی آزاد پارلیمانی جمہوریت کو ہٹانا یا نقصان پہنچانا ہے، یا جان بوجھ کر دیگر عناصر کے لیے ایسا ماحول پیدا کرنا ہے کہ وہ یہ نتائج حاصل کر سکیں۔‘
اس کےعلاوہ نئی تعریف میں تشدد اور عدم برداشت پر مبنی نظریات کو فروغ دینے والے کو برطانوی حکومت فنڈنگ نہیں مہیا کرے گی اور نہ ہی کسی اور قسم کی سہولت دے گی اور نہ وہ کسی وزرا سے ملاقات کرسکیں گے۔
ردِعمل
کینٹربری اور یارک کے آرچ بشپ جسٹن ویلبی اور اسٹیفن کوٹریل نے مشترکہ بیان میں تشویش کا اظہار کیا کہ نئی تعریف کی وجہ سے مسلم کمیونٹیز کے لیے خطرات میں اضافہ ہوگا، جو پہلے ہی نفرت اور بدسلوکی کی بڑھتی ہوئی سطح کا سامنا کر رہی ہیں۔’
فلسطینی یکجہتی مہم نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’ ہم آج مائیکل گو کے بیان کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، ان کی انتہا پسندی کی نئی تعریف جسے جمہوریت کے تحفظ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، بنیادی جمہوری حقوق پر حملہ ہے جس کا مقصد اختلاف کرنے والوں کو خاموش کرنا ہے۔’