ترکیہ بلدیاتی انتخابات، صدررجب طیب اردوان کو دو دہائیوں بعد بدترین شکست
ترکیہ کے بلدیاتی انتخابات میں صدر رجب طیب اردوان اور ان کی جماعت کو 2 دہائیوں سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے بعد بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے ترکیہ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے دوران صدر اردوان کے جمہور اتحاد (پیپلز الائنس) اور حزب اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔
تقریبا 60 فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد ترکیہ کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز استنبول میں ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے موجودہ میئر اکرام امام اوغلو آگے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی نے انقرہ کے علاوہ ملک کے بڑے شہروں میں میئر کی 9 دیگر نشستیں حاصل کر لی ہیں، ریپبلکن پیپلزپارٹی نے 70 سال بعد تاریخی کامیابی حاصل کرلی۔
دارالحکومت انقرہ میں اپوزیشن کے میئر منصور یاواس کو 59 فیصد ووٹوں کے ساتھ اپنے حریف پر نمایاں برتری حاصل ہے، حامیوں نے شہر کی اہم سڑکیں بلاک کر کے پارٹی پرچم لہرائے اور ہارن بجا کر جشن منایا۔
استنبول کے میئر امام اوغلوکو تقریباً 10 پوائنٹس کے ساتھ برتری حاصل ہے، اپوزیشن کے موجودہ میئر انقرہ منصور یاواش کو بھی برتری حاصل ہے۔
مجموعی طورپر حکمران اتحاد پارٹی کو 340 اور حزبِ اختلاف جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی(سی ایچ پی) کو 240 اضلاع میں برتری ہے۔
اس ووٹ کو صدر رجب طیب اردگان کی مقبولیت کے پیمانہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے 5 سال قبل ہونے والے انتخابات میں حزب اختلاف کے ہاتھوں شکست کھانے والے اہم شہری علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
رجب طیب اردوان نے شکست تسلیم کرلی
ترکیہ کےصدر 70 سالہ رجب طیب اردوان بلدیاتی انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے یہ انتخابات اختتام نہیں بلکہ ایک ٹرننگ پوائنٹس ہے، بلدیاتی انتخابات میں شکست کے بعد پارٹی اپنا احتساب کرے گی۔
انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ بطور صدر یہ ان کی آخری مدت ہوگی، کیونکہ ان کی صدارتی مدت 2028 میں ختم ہو رہی ہے۔
شکست تسلیم کرنے کے بعد اردوان نے کہا کہ ترک عوام نے ووٹ کے ذریعے سیاستدانوں کو پیغام پہنچادیا، مئی الیکشن میں جیت کے 9 ماہ بعد مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے، اے کے پارٹی اور پیپلز الائنس نے الیکشن کی بھرپور تیاری کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی نتائج کا پارٹی میں جائزہ لیں گے اور اپنا احتساب کریں گے۔