• KHI: Zuhr 12:37pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:03pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 5:12pm
  • KHI: Zuhr 12:37pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:03pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 5:12pm

سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واڈا کی پریس کانفرنس پر از خود نوٹس لے لیا

شائع May 16, 2024
— فائل فوٹو: پی آئی ڈی
— فائل فوٹو: پی آئی ڈی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹر فیصل واڈا کی گزشتہ روز کی گئی پریس کانفرنس پر از خود نوٹس لے لیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سینیٹر فیصل واوڈا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا اور کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران 5 رکنی لارجر بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ججوں کوپراکسی کے ذریعے دھمکانا شروع کردیا ؟ کیا آپ پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے؟

اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں، یہ نہیں ہونا چاہیے، میں اس بات کا حامی نہیں ہوں،اس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نہ تو اس سے کوئی جج متاثر ہوگا، نہ ہراساں۔

آج سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کے خلاف پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس لیا، عدالت عظمیٰ نے نے از خود نوٹس کیس کی کاز لسٹ جاری کردی۔

سپریم کورٹ رجسڑار آفس نے فیصل واوڈا کے خلاف توہین عدالت کیس کا نمبر لگا دیا، فیصل واوڈا کے کیس پرکرمنل اویجنل نمبر 6/2024 لگایا گیا،سپریم کورٹ کی جانب سےفیصل واوڈا کیس میں اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس بھی جاری کردیا گیا۔

کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کل از خود نوٹس پر سماعت کرےگا، بینچ میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر شامل ہوں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واڈا کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، 15 روز ہوگئےجواب نہیں آیا، 19 اے کے تحت مجھے جواب دیا جائے، بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے آرڈر دیا کہ ہر پاکستانی بات کسی سے بھی پوچھ سکتا ہے تو پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو جواب نہیں مل رہا تو اب ابہام بڑھ رہا ہے، شک و شبہات سامنے آرہے ہیں کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے چیزیں ہوئیں، ایک سال بعد یاد آئیں، تو ایک سال پہلے کیوں نہیں بتایا؟ اب پھر مداخلت ہوئی پرسوں تو الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، اب آپ کو ثبوت دینے پڑیں گے کہ کس نے مداخلت کی، کیوں کی اور اس کے شواہد دیں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ورنہ تو میں بھی فون اٹھا کے کہوں کہ جج نے کہہ دیا ہے کہ قتل کردو تو اس کا ٹرائل تھوڑی ہوجائے گا۔

فیصل واڈا نے کہا تھا کہ ہمیں جواب نہیں مل رہا، ہمیں بتایا جائے کہ کیا ریکارڈ کے اندر یہ سب لکھا گیا ہے اور اگر ریکارڈ کا حصہ نہیں تو اس کے نتائج ہوں گے، اطہر من اللہ صاحب تو تاریخی فیصلے کرتے ہیں، میرا گمان ہے کہ وہ اصول پسند آدمی ہیں، وہ کسی دباؤ میں نہیں آتے، کسی سے رات کے اندھیرے میں نہیں ملتے تو وہ ایسی غلطی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے تحریری طور پر چیز نا لی ہو، وہ ریکارڈ ہمیں ملنا چاہیے، ہم اسے کیوں نا منگیں؟

سابق وزیر کے مطابق سوشل میڈیا کے اوپر آپ نے نوٹس لیا، لیکن ہماری ماؤں کو جب سوشل میڈیا کے ٹرولز غلاظت بک رہے تھے تو اس پر بھی نوٹس لیا جانا چاہیے تھا لیکن جسٹس منصور علی شاہ نے بہت اچھی بات کی، خود احتسابی کی بات کی تو اس پر ہمیں خوش ہونا چاہیے لیکن ایک تناؤ ہے جس کے تحت بار بار انٹیلیجنس اداروں کا نام لیا جا رہا ہے تو شواہد دیں، اور اگر جو آپ نے بتایا وہ زبانی ہے تحریری نہیں ہے تو پھر تو مسئلہ ہے، اس معاملے کو واضح کریں تاکہ یہ منطقی انجام تک پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ سستی روٹی، غریب کے لیے کوئی اسٹے آرڈر ہوا؟ نسلہ ٹاور کے متاثرین کے لیے کچھ ہوا؟ 40 سال پہلے بھٹو صاحب کو علامتی سزا دی گئی آپ ہمیں بتا رہے ہیں، یہ ہمیں پہلے سے ہی پتا تھا، نواز شریف کو پیسے نا لینے پر نا اہل کردیا گیا پر کوئی پوچھنے والا نہیں، عمران خان کی حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا، کب تک ہم یوں چلیں گے، اگر قانون ساز کوئی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج دوہری شہریت کے ساتھ کیسے بیٹھے ہیں؟

فیصل واڈا نے کہا تھا کہ جوپاکستان کا جھنڈا لے کر آگے بڑھ رہے ہیں ایس آئی ایف سی کے فورم سے تو اس جھنڈے میں ہم نے ان کو ڈنڈا بھی دیا ہے اور اس ڈنڈے کا کام یہ ہے کہ بیرون اندرونی سازش اور انتشار سے بچایا جائے کیونکہ یہ ادارہ واحد رہ گیا ہے جہاں 90 فیصد ڈسپلن ہے، سچائی ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ہمارے لیے پاکستان اہم ہے، آئین و قانون میں کہاں لکھا ہے کہ پولیس اور سیکیورٹی والے سرحد کی حفاظت کریں گے؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ جنہوں نے قربانیاں دی ان پر الزامات لگائے جائیں؟ اگر ان پر الزامات سچے ہیں تو شواہد رکھیں، ان کے کل پرسوں کے خط کے مطابق بھی ہمیں کاغذی کارروائی چاہیے، بہت مذاق ہوگیا پاکستان کے ساتھ، مجھے امید ہے کہ جواب جلد آنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر آپ قدغن لگائیں لیکن اپنے لیے نہیں سب کے لیے، میری والدہ بستر مرگ پر تھیں تب انصاف فراہم کرنے والوں نے میری پگڑیاں اچھالی، اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے، پیار کریں گے تو ڈبل پیار دیں گے لیکن بدمعاشی کریں گے تو ڈبل بدمعاشی کریں گے، اداروں کو نشانہ بنانا بند کریں، فوج نہیں ہو گی تو پاکستان نہیں بچے گا، اگر ان کی مداخلت ہے تو ثبوت پیش کریں، ضمانت آپ دیتے ہیں سوال ہم سے، جیل آپ بھیجتے ہیں سوال ہم سے، کوئی جیپ میں بٹھا کے لے جائے تو جیپ کے آگے بیٹھ جائیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ بہت سارے راز ہیں، ہوم ورک ہے لیکن مجھے گمان ہے کہ اطہر من اللہ شہ سرخیوں پر فیصلہ نہیں کرتے، وہ اتنی بڑی غلطی نہیں کرسکتے، اگر لکھا ہوا ہے تو سوال ختم، بات ختم ہوجاتی ہے لیکن نہیں ہے اگر ریکارڈ تحریری تو پھر سوال اٹھیں گے، سپریم جوڈیشل کونسل کو اس میں مداخلت کرنی ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 4 جولائی 2024
کارٹون : 3 جولائی 2024