بلوچستان کا نئے مالی سال کا 956 ارب روپے کا سرپلس بجٹ پیش کر دیا گیا
بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی زیرقیادت مخلوط حکومت نے مالی سال 25-2024 کے لیے 955.6 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا، جس میں 321.2 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات اور 25.4 ارب روپے کے کیش سرپلس کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب احمد نوشیروانی نے بجٹ پیش کیا، جو مالی سال 24-2023 کے 701.4 ارب روپے کے مقابلے میں 36 فیصد زائد ہے، اس کی بنیادی وجہ وفاقی ٹیکس کے قابل تقسیم پول سے صوبے کی وصولیوں میں 39 فیصد سے زیادہ متوقع اضافہ ہونا ہے، جو موجودہ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) انتظامات کے تحت 464 ارب 70 کروڑ روپے سے بڑھ کر 647 ارب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے دیگر وصولیوں میں 20 ارب 60 کروڑ روپے براہ راست منتقلی، 2 کروڑ روپے غیر ترقیاتی گرانٹس اور 59.1 ارب روپے کی ترقیاتی گرانٹس شامل ہیں، اس کے علاوہ صوبائی ٹیکسوں سے 47.7 ارب روپے اور صوبائی نان ٹیکس وصولیوں سے 76.8 ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔
ترقیاتی اسکیموں کے لیے غیر ملکی پروجیکٹ امداد کا تخمینہ 10 ارب 90 کروڑ روپے لگایا گیا ہے، جو اس سال کے لیے 12 ارب روپے سے زیادہ ہے۔
جاری اخراجات میں 41 فیصد سے زیادہ اضافے سے صوبے کے ریونیو نمایاں بڑھنے کا اثر زائل ہو جائے گا، سیکیورٹی اخراجات اور تنخواہ اور پنشن میں اخراجات 564 ارب 90 کروڑ تک پہنچ جائیں گے۔
دریں اثنا، ترقیاتی اخراجات کو 313 ارب 30 کروڑ روپے سے معمولی طور پر بڑھا کر 321 ارب 20 کروڑ روپے کرنے کی تجویز ہے۔
میر شعیب احمد نوشیروانی کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے سنجیدہ کوششیں اور تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے تاکہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچے جو اس وقت تعلیم سے محروم ہیں ان کا داخلہ پرائمری اور ہائی سکول میں ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں 535 نئی آسامیاں پیدا کی جائیں گی اور گریڈ 9 سے 15 تک کی 9 ہزار 394 خالی آسامیوں کو میرٹ پر پُر کیا جائے گا تاکہ اساتذہ کی موجودہ کمی پر قابو پایا جا سکے اور غیر اسکولوں کو دوبارہ فعال کیا جا سکے۔
صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی گرانٹس سے 3.5 ارب روپے 22 ’پسماندہ‘ اضلاع میں تعلیم کی بہتری پر خرچ کیے جائیں گے، اور 5 ارب روپے مالی بحران کی شکار یونیورسٹیوں کے لیے مختص کیے جا رہے ہیں، مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے مالی بحران سے متاثر 11 جامعات کے لیے 2 ارب روپے جاری کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم پر ترقیاتی اخراجات کے لیے 32 ارب روپے اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے 114.8 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔
شعبہ صحت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے 67.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 30 فیصد اضافہ ہے، ترقیاتی اخراجات کے لیے مزید 20 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں صحت کے شعبے میں 242 نئی آسامیوں کا اعلان کیا جائے گا، مزید کہا کہ گوادر پاک چائنا فرینڈ شپ ہسپتال کو انڈس ہسپتال کے زیر انتظام چلانے کے لیے 1.3 ارب روپے جبکہ بچوں کو کینسر سے بچانے کے لیے پیڈیاٹرک آنکولوجی سروسز کے لیے 1.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
میر شعیب احمد نوشیروانی کا کہنا تھا کہ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مختلف منصوبے تیار کیے ہیں، جن میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بحالی اور لوگوں کو مستقبل میں آنے والے سیلاب سے بچانے کے لیے ہیئرڈن ڈرینج سسٹم کی بہتری شامل ہے۔
صوبائی وزیر کے مطابق حکومت بلوچستان نے امن و امان اور سیکیورٹی کے لیے مجموعی طور پر 93 ارب 10 کروڑ روپے مختص کیے ہیں، پولیس، لیویز فورس اور بلوچستان کانسٹیبلری کے لیے 74 ارب روپے جبکہ گوادر سیف سٹی پروجیکٹ کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔
حکومت بلوچستان نے مقامی حکومتوں کے لیے دستیاب فنڈز میں 108 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے، جو مالی سال 25-2024 میں کل بجٹ کو 35 ارب روپے تک لے جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرح گریڈ ایک سے 16 تک کے صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں کے لیے 25 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کی تنخواہوں میں 22 فیصد اضافہ کیا جائے گا، اس کے علاوہ صوبائی حکومت نے بلوچستان کے پنشن فنڈ میں مزید 2 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت بلوچستان نے یکم جولائی سے نئے ملازمین کے لیے معاون پنشن اسکیم بھی متعارف کرائی ہے۔