اتنی عجلت کیوں؟ نیٹ ورک کام نہیں کر رہا، ڈیجیٹل پالیسی کیسے کامیاب ہوگی’؟
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے اجلاس کے دوران متعدد ممبران نے اسے منظوری کرانے کے لیے حکومت کی عجلت پر تشویش کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ ملک میں نیٹ ورک کام نہیں کر رہا، حکومت کی یہ ڈیجیٹل پالیسی کیسے کامیاب ہوگی۔
امین الحق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس ہوا، کمیٹی کا اجلاس ون پوائنٹ ایجنڈے پر بلایا گیا، متعدد کمیٹی ممبران نے عجلت میں اجلاس بلانے اور کمیٹی سے بل منظور کرانے کی مخالفت کی۔
کمیٹی ممبر پولین بلوچ نے کہا کہ ہم گن پوائنٹ پر کام نہیں کر سکتے ہیں، یہ ملک کے مستقبل کا مسئلہ ہے، آپ چاہتے ہیں رات و رات بل آئے اور منظور ہو جائے، ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 گزشتہ روز ہی وزیر مملکت آئی ٹی شزہ فاطمہ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
بل پر سیکریٹری آئی ٹی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کوئی بھی جدید معاشرہ ڈیجیٹل اکنامی، ڈیجیٹل سوسائٹی اور ڈیجیٹل گورننس پر مشتمل ہوتا ہے، تعلیمی اداروں کی ڈگری ایچ ای سی تصدیق کروانا پڑتی تھی یا دیگر کام ایسے ہوتے تھے، دنیا میں رائج طریقہ کار اور معیارات کا مطالعہ کرکے یہ نظام متعارف کررہے ہیں، عام آدمی کو اس ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کا فائدہ ہوگا۔
بل پر وزیر مملکت شزہ فاطمہ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخی کام پاکستان میں ہونے جارہا ہے، بیوروکریٹس اور وزارتوں میں فائلوں کے پھنسنے والا رویہ ختم ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہیلتھ سیکٹر میں اس نظام سے فائدہ ہوگا، کونسی بیماری کہاں پھیل رہی ہے، ایکسائز ڈیپارٹمنٹ، ایف بی آر، لائسنسنگ ڈیپارٹمنٹ، ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک سب اس سے منسلک ہوں گے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ ڈیپ منصوبہ کے لیے ورلڈ بینک نے 78 ملین ڈالر کا فنڈ دیا تھا، ہمارے پاس فنڈ ہیں جو اس نظام کو فوری موبلائز کریں گے، نیشنل ڈیجیٹل کمیشن میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کو شامل کیا جائے گا کیونکہ یہ قومی کاز ہے۔
شزا فاطمہ نے کہا کہ ڈیپ منصوبے کے تحت یہ قانون تیار کیا گیا جس کے تحت یہ نظام بنے گا، 14 اگست 2025 تک کوشش ہے کہ اس ڈیجیٹل ٹرانسفارم سے متعلق بنیادی ڈھانچے ہم متعارف کروا دیں، جہاں جہاں ڈیٹا بیس ہوگا اسے اس سے منسلک کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ڈیجیٹل ماسٹر پلان بنایا جارہا ہے، ڈیٹا سینٹرز عوام کے پیسے سے الگ الگ نہیں بنایا جانا چاہے، ایک مرکزی ڈیٹا سینٹر ہونا چاہے، ہر وزارت اپنا اپنا ڈیٹا سینٹر بنا رہی ہے جسے بند ہونا چاہے، این ٹی سی، نادرا ڈیٹا سینٹر ہے، پرائیویٹ کا اپنا ڈیٹا سینٹر ہے، ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر ہونا چاہے جہاں ایک ڈیٹا ہی ہو۔
دوسری جانب قائمہ کمیٹی کے متعدد ممبران نے عجلت میں کمیٹی سے بل منظور کرنے پر تشویش کا اظہار کردیا، کمیٹی ممبر مہیش کمار نے کہا کہ اتنی عجلت کیا ہے کل بل پیش ہوا، آج یہاں سے منظوری چاہیے، نیٹ ورک کام نہیں کر رہا ہے، یہ ڈیجیٹل پالیسی کیسے کامیاب ہوگی، پہلے آپ صوبوں کو لکھیں اور ان سے مشاورت کرلیں وہ کتنے تیار ہیں۔
کمیٹی ممبر احمد عتیق انور نے کہا کہ ڈیٹا گولڈ ہے اور اگر اسے ایک جگہ اکٹھا کرنا اور ایک وزارت کو اس کا اختیار دینا خطرناک ہے،کل کو کوئی چوہدری جاکر کہے مجھے ڈیٹا نکال دیں تو پریشر میں یہ لیک ہوسکتا ہے، کسی ایک شخص یا محکمے یا وزارت کو اختیار دینا مناسب نہیں ہے۔
کمیٹی ممبر شیر علی نے کہا کہ مزید دو دن دیں تاکہ اس بل پر مزید مشاورت کی جاسکے۔
وزیر مملکت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے کہا کہ ہمیں اس بل کو منظور کرلینا چاہیے، ہمیں ہر گزرتے دن کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے، آگر آج بل منظور نہ ہوا تو ڈیڑھ ماہ کا بریک آجائے گا، کل قومی اسمبلی میں بل پر بحث ہوگی، قومی اسمبلی میں بھی بل پر ترامیم لائی جاسکتی ہیں، ممبران بل پاس کروائیں اور ہمارے 2 ماہ بچائیں، ہم نے اس کے لیے بیرون ملک بیٹھے پاکستانی ماہرین کو لانا ہے۔
کمیٹی ممبر مہیش کمار نے کہا کہ بل پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے لیں، سیاسی قیادت سے کل اسمبلی میں بحث سے قبل مشاورت کرلیں۔
بحث کے بعد قائمہ کمیٹی نے ڈیجیٹل نیشن بل کی منظوری کل تک کے لیے موخر کردی بل پر مشاورت کے لیے کمیٹی کا اجلاس کل دوبارہ طلب کرلیا گیا۔