روس میں سابق شامی صدر بشارالاسد کو زہر دیکر قتل کرنے کی کوشش، طبیعت بگڑ گئی
شام کے معزول صدر بشار الاسد کو روس میں زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کا انکشاف ہوا ہے۔
برطانوی اخبار دی سن کی رپورٹ کے مطابق آن لائن اکاؤنٹ جنرل ایس وی آر کا کہنا ہے کہ بشار الاسد اتوار کے روز بیمار پڑ گئے تھے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 59 سالہ بشار الاسد نے طبی امداد مانگی، جس کے بعد انہیں فوری طور پر ’شدید کھانسی کا دورہ پڑا اور دم گھٹنا‘ شروع ہوگیا۔
معزول شامی صدر 8 دسمبر 2024 سے ماسکو میں ولادیمیر پیوٹن کی نگرانی میں رہ رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات پر یقین کرنے کی تمام وجوہات موجود ہیں کہ قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی تھی، بتایا جاتا ہے کہ اسد کا علاج ان کے اپارٹمنٹ میں کیا گیا اور پیر کے روز ان کی حالت مستحکم ہو گئی تھی۔
ٹیسٹ سے پتا چلا کہ بشار الاسد کے جسمانی نظام میں زہر موجود تھا، روس کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ یہ انکشاف ہوا تھا کہ بشارالاسد کی اہلیہ اسما کو برطانیہ واپس جانے سے روک دیا گیا ہے، لندن میں پیدا ہونے والی 49 سالہ سابق شامی خاتون اول اپنے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے کی وجہ سے وطن واپس نہیں جا سکیں گی۔
اسما، ان کے ڈکٹیٹر شوہر اور ان کا خاندان اس وقت ماسکو میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔
یہ جوڑا شام میں اپنے خاندان کے طویل دور اقتدار کے خاتمے کے بعد فرار ہو کر روس میں پناہ گزین ہو گیا تھا، کیونکہ اسد کے دو دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد باغیوں نے چند ہی دنوں میں اس کا صفایا کر دیا تھا۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے انہیں پناہ کی پیشکش کی تھی، کیونکہ وہ مشرق وسطیٰ فرار ہو گئے تھے۔
تاہم جلاوطنی کے بعد سے ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ اسما برطانیہ واپس جانا چاہتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ طلاق بھی چاہتی ہوں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال کے آخری ماہ میں شام میں علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے صدر بشار الاسد کے خلاف سنی مزاحمت کاروں نے کامیاب بغاوت کرتے ہوئے انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا، جس کے بعد شام میں اب عبوری حکومت بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
باغیوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد شام کی جیلوں میں قید تمام قیدیوں کو رہا کردیا تھا، راں ہفتے ہی شام کی عبوری حکومت نے تعلیمی نصاب اور قومی ترانے میں تبدیلیاں متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے، جس میں ایک تحریر میں اسد کا نام بھی حذف کیا جائے گا، شام کے اقلیتی گروپوں نے نصاب میں تبدیلی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔