افغان حکومت نے امریکا میں قید افغان جنگجو کے بدلے 2 امریکی شہری رہا کردیے
افغان حکومت نے امریکا میں قید افغان جنگجو خان محمد کی رہائی کے بدلے 2 امریکی شہریوں کو جیل سے رہا کرنے کا اعلان کردیا، امریکا میں قید خان محمد افغانستان پہنچ گئے۔
قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں بات چیت کی تصدیق گزشتہ سال ہوئی تھی لیکن اس تبادلے کا اعلان اس وقت کیا گیا جب سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جو بائیڈن نے اقتدار ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغان وزارت خارجہ کی جانب سے منگل کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں قید افغان جنگجو خان محمد کو امریکی شہریوں کے بدلے رہا کر دیا گیا ہے اور وہ وطن واپس آگئے ہیں۔
افغان وزارت خارجہ نے کہا کہ خان محمد تقریباً دو دہائی قبل مشرقی افغان صوبے ننگرہار سے گرفتار ہونے کے بعد کیلیفورنیا میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دو امریکی شہریوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
2022 میں طالبان کے ہاتھوں حراست میں لیے گئے امریکی شہری ریان کاربٹ کے اہل خانہ نے تصدیق کی ہے کہ انہیں رہا کر دیا گیا ہے اور اور اظہار تشکر کیا کہ وہ گھر آ رہے ہیں۔
ریان کے اہل خانہ نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ ’آج ہمارے دل خدا کی شکر گزاری اور تعریف سے بھرے ہوئے ہیں کہ اس نے ریان کی زندگی کو برقرار رکھا اور ہماری زندگی کے سب سے مشکل اور غیر یقینی 894 دنوں کے بعد اسے وطن واپس لایا‘۔
انہوں نے کاربیٹ کی رہائی پر بائیڈن اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ قطر کا بھی شکریہ ادا کیا اور افغانستان میں قید دیگر 2 امریکیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق طالبان کی قید سے رہائی حاصل کرنے والے دوسرے امریکی شہری ولیم میک کینٹی ہیں جن کے بارے میں میں بہت کم معلومات ہیں کہ وہ افغانستان میں کیا کر رہے تھے، ان کے اہل خانہ نے امریکی حکومت سے اس معاملے میں رازداری اپنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ دیگر 2 امریکی اب بھی افغانستان میں زیر حراست ہیں جن میں ایئر لائن کے سابق میکینک جارج گلیزمین اور پیدائشی امریکی محمود حبیبی شامل ہیں۔
اگست 2024 میں امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن ( ایف بی آئی) نے کہا تھا کہ وہ 2 سال قبل افغان نژاد امریکی تاجر محمود حبیبی کی گمشدگی کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا ہے۔
جو بائیڈن کو 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے بے ترتیب انخلا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس سے ایک سال سے زیادہ عرصہ قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ دو دہائیوں سے جاری جنگ ختم کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔
نیا باب
نومبر میں منعقدہ انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد طالبان حکومت نے کہا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں ایک ’نئے باب‘ کی امید کر رہی ہے۔
طالبان حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہر ملک کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتے ہیں۔
کسی بھی ریاست نے سرکاری طور پر ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے، خواتین کے حقوق پر پابندیاں امریکا سمیت بہت سے ممالک کے لیے ایک اہم نقطہ ہے۔
طالبان حکومت نے منگل کو قیدیوں کے اس تبادلے کو ’مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی ایک اچھی مثال‘ قرار دیا اور اس سلسلے میں برادر ملک قطر کے موثر کردار پر خصوصی شکریہ ادا کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امارت اسلامیہ امریکا کے ان اقدامات کو مثبت انداز میں دیکھتی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور وسعت دینے میں معاون ہیں۔
2008 میں امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے جاری ایک بیان میں اس وقت 38 سالہ خان محمد کو ’افغان طالبان سیل‘ کا رکن قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اسے اکتوبر 2006 میں گرفتار کیا گیا تھا اور دسمبر 2008 میں اسے ’منشیات اور منشیات سے منسلک دہشت گردی کے الزام میں دو بار عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ امریکا کی وفاقی عدالت کی جانب سے منشیات سے منسلک دہشت گردی کے کیس میں پہلی سزا ہے۔
طالبان حکام نے اقتدار میں واپسی کے بعد سے درجنوں غیر ملکیوں کو حراست میں لیا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے افغان شہری امریکی حراست میں ہیں۔
کیوبا کی خفیہ امریکی جیل گوانتانامو بے میں کم از کم ایک افغان قیدی محمد رحیم زیر حراست ہے جس کے اہل خانہ نے نومبر 2023 میں اس کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ سال فروری میں 2017 تک گوانتانامو بے میں قید رہنے والے دو سابق قیدیوں کو گرفتاری کے 20 سال بعد وطن واپس بھیج دیا گیا تھا۔