کراچی: 7 سالہ صارم کے قاتل کی عدم گرفتاری پر مکینوں کا احتجاج
کراچی کے علاقے نارتھ کراچی میں 7 سالہ صارم کے اغوا اور قتل میں ملوث ملزمان کی عدم گرفتاری پر مکینوں نے احتجاج کیا۔
واضح رہے کہ 18 جنوری کو کراچی میں نارتھ کراچی کے علاقے میں 11 روز سے لاپتا 7 سالہ بچے صارم کی لاش گھر کے قریب زیرزمین پانی کے ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔
غمزدہ خاندان اور مقامی لوگوں نے مین روڈ پر دھرنا دیا جس سے ٹریفک میں خلل پڑا، اس موقع پر مقتول کے والدین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پولیس کی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 7 جنوری کو صارم کے لاپتا ہونے کے پہلے دن اور لاش برآمد ہونے تک تحقیقات کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا، مزید کہنا تھا کہ وہ پولیس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، پولیس نے کچھ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے لیکن قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
دریں اثنا، پولیس نے بتایا کہ زیر حراست مشتبہ افراد کے ڈی این اے نمونے لے کر کراچی یونیورسٹی میں لیب کو بھیج دیا گیاہے۔
ڈی آئی جی غربی عرفان علی بلوچ کا کہنا تھا کہ انہوں نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے، جس میں ڈی ایس پی اور تین پولیس انسپکٹرز شامل ہیں، جو اس حوالے سے فوری تحقیقات کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ملوث ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کے لیے بھرپور کوششیں کرے گی۔
واضح رہے کہ 20 جنوری کو پولیس افسر نے تصدیق کی تھی کہ کراچی میں نارتھ کراچی کے رہائشی 7 سالہ متوفی بچے صارم کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
عباسی شہید ہسپتال کے میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر غضنفر علی شہریار کی جانب سے تیار کی گئی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچے سے جنسی تشدد کی نشاندہی کی گئی تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ متوفی بچے کے جسم کے مختلف حصوں پر 12 مختلف زخم موجود تھے، جن میں سے 11 ’اینٹی مارٹم ہیں‘ (موت سے پہلے) کے تھے۔
18 جنوری کو کراچی میں نارتھ کراچی کے علاقے میں 11 روز سے لاپتا 7 سالہ بچے صارم کی لاش گھر کے قریب زیرزمین پانی کے ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔
اہل علاقہ نے بتایا تھا کہ پانی کے ’وال مین‘ نے بدبو آنے پر بچے کی لاش کی اطلاع یونین کو دی تھی، ننھے صارم کی لاش زیر زمین ٹینک سے نکال لی گئی تھی، یونین نے ٹینک کو گتے سے ڈھکا ہوا تھا اور کوئی احتیاطی تدبیر اختیار نہیں کی تھی، اس سے قبل پولیس نے ٹینک کو چیک کیا تھا تاہم اس وقت لاش کے شواہد نہیں ملے تھے۔
واضح رہے کہ صارم کی گمشدگی کا معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا تھا جس کے بعد گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے بچے کے گھر جاکر والدین سے اظہار یکجہتی بھی کیا تھا۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کی اگست کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں ملک بھر میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے کل 1630 کیسز رپورٹ ہوئے۔
اس کے علاوہ سال 2024 کے ابتدائی 6 ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 862، اغوا کے 668، گمشدگی کے 82 اور کم عمری کی شادیوں کے 18 کیسز رپورٹ ہوئے۔
6 ماہ کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ رپورٹ ہونے والے کل کیسز میں سے 962 متاثرین میں 59 فیصد لڑکیاں تھیں جب کہ 668 یعنی 41 فیصد لڑکے تھے۔