بریتھ پاکستان: جسٹس منصور علی شاہ کی عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز
سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب دور کی بات نہیں ہے، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ موجودہ اور بڑھتا ہوا بحران ہے جو کہ بالخصوص عالمی جنوب کے ممالک کے لیے خطرہ ہے، عالمی جنوب بشمول پاکستان نے عالمی اخراج میں سب سے کم حصہ ڈالا لیکن ہمیں اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔
کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ڈان میڈیا گروپ کے زیراہتمام عالمی موسمیاتی کانفرنس ’بریتھ پاکستان‘ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ پاکستان موسمیاتی تباہی کے تناظر میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے اور اس کا شمار خطرے سے سب سے زیادہ دوچار 5 ممالک میں ہوتا ہے، جسے شدید موسمی حالات، گلیشیئرز کے پگھلاؤ، پانی کی قلت اور تباہ کن سیلابوں کا سامنا ہے۔
سینئر پیونی جج نے کہا کہ مجھے سیلابوں اور تباہی کی مثالیں دینے کی ضرورت نہیں ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ 2022 کے سیلاب نے ایک تہائی ملک کو ڈبو دیا تھا،3 کروڑ 30 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے اور ملک کو 30 ارب ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہندوکش ہمالیہ گلیشئرز کے دامن میں واقع ہے جو کہ خطرناک تیزی سے پگھل رہے ہیں اور دریائے سندھ کے لیے خطرہ بن رہے ہیں جو کہ پاکستانی زرعی نظام کی لائف لائن ہے اور ملک کو پانی کے سنگین بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، شدید ہیٹ ویوز،خشک سالی، جیکب آباد میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے کچھ علاقوں کو ناقابل رہائش بنادیا ہے، صحت کو درپیش خطرات بڑھ رہے ہیں، توانائی اور پانی کے وسائل میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 40 فیصد افرادی قوت کو روزگار دینے والی زراعت غیر یقینی مون سون کا شکار ہے جس کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ، نقل مکانی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج نے مزید کہا کہ ’ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عالمی جنوب کو دہری ناانصافی کا سامنا ہے، پہلا ماحولیاتی اثرات کا غیر متناسب بوجھ اور دوسرا اسٹرکچرل رکاوٹیں ہیں جو مؤثر طریقے سے جواب دینے کی صلاحیت کو محدود کرتی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے’ ماحولیاتی انصاف کی تشکیل کے لیے درکار 9 ستونوں“ کی فہرست پیش کی، پہلا “موافقت، نقصان اور تباہی پر مضبوط توجہ’ تھا, تخفیف ہمارا فوری مسئلہ نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دوسرا، ایک مضبوط، فعال، باخبر عدلیہ اور میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایک آزاد عدلیہ بھی ناگزیر ہے، جو یہاں تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔
انہوں نے جن دیگر نکات کا ذکر کیا ان میں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ موسمیاتی مالیات، قدرتی مالیات اور موسمیاتی سائنس آسانی سے دستیاب ہو، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پالیسیاں ثبوت پر مبنی ہوں، اور اتحاد قائم کرنے کے لیے ماحولیاتی سفارت کاری پر توجہ دی جائے۔
انہوں نے جس ساتویں ”ستون“ پر روشنی ڈالی وہ بیرونی مدد کا انتظار کرنے کے بجائے مقامی حل میں سرمایہ کاری کرنا تھا جبکہ آخری دو نکات ماحولیاتی احتساب اور ماحولیاتی عدالتیں تھیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نشاندہی کی کہ عالمی شمال کی توجہ اخراج پر قابو پانے پر مرکوز ہے جبکہ عالمی جنوب کا کینوس بہت وسیع ہے،یہ تبدیلی عالمی جنوب کے لیے ماحولیاتی انصاف کو ایک کثیر شعبہ جاتی مسئلہ بناتی ہے۔
انہوں نے کہاکہماحولیاتی انصاف کا دائرہ اب پانی کی حفاظت، زراعت، فوڈ سیکورٹی، آفات کے خطرے میں کمی، صحت، شہری منصوبہ بندی، بنیادی ڈھانچے، ماحولیاتی نظام ،تنوع، توانائی، مالیات اور آب و ہوا تک وسیع اور مکمل طور پر بدل چکا ہے ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آج ماحولیاتی انصاف کو، عدلیہ کس طرح محسوس کرتی ہے، یہ ماحولیاتی مالیات ہے، مناسب فنڈنگ کے بغیر موافقت ایک حقیقت کے بجائے ایک خواہش ہے۔
انہوں نے کہا کہ’آب و ہوا کی تباہی کا خمیازہ برداشت کرنے کے لئے سب سے زیادہ کمزور ملک کے طور پر ہم نے 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد جلد ہی محسوس کیا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ماحولیات کی مالی اعانت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فنانسنگ میں تاخیر صرف پالیسی کی ناکامی نہیں بلکہ انصاف سے انکار ہے، عالمی جنوب کے لیے موسمیاتی فنانسنگ کو انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے خود کو ڈھالنے، بحالی اور تعمیر نو کی صلاحیت کوئی استحقاق نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ’ہمارے آئین اور بین الاقوامی فریم ورک میں زندگی اور وقار کے حق میں اب آب و ہوا کی مالی اعانت کا حق شامل ہونا چاہیے، اس کے بغیر،ہمارے لوگ ایک ایسے بحران کے خلاف بے بس رہ جاتے ہیں جو انہوں نے پیدا نہیں کیا۔
موسمیاتی تبدیلی کےخلاف جنگ اکیلے نہیں لڑی جا سکتی، احسن اقبال
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے جس کے خلاف جنگ اکیلے نہیں لڑی جاسکتی۔
احسن اقبال نے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی کے اس عالمی مسئلے پر آواز اٹھانے، اپنے اخبار میں خصوصی سپلیمنٹ شائع کرنے اور آج کی اس کانفرنس کے انعقاد پر ڈان میڈیا گروپ اور ان کے شراکت داروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آج کی اس کانفرنس میں دنیا بھر کے ماہرین ایک اہم عالمی مسئلے موسمیاتی تبدیلی کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں، یہ وقت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم اقدامات کرنے کا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا اہم مسئلہ ہے، کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود پاکستان کو اس تبدیلی کے سنگین نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
انہوں نے 2022 کے سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2 سال قبل ہمارے ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب کے سبب ڈوب گیا تھا، 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا، 1700 افراد کی جانیں گئیں، 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی بڑ اخطرہ ہے، جب کہ ہمارے ملک کا ایک اور بڑا مسئلہ اسموگ کا ہے، خراب ایئر کوالٹی کے سبب لوگوں کی سحت اثر انداز ہو رہی ہے۔
آخر میں احسن اقبال نے اس امر پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کی یہ لڑائی اکیلے نہیں لڑ سکتے اس میں مزید ممالک کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے، نمائندہ اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ اینڈ ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ کا کہنا تھا کہ اس خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے خطے کو کیا نقصانات بھگتنا پڑ رہے ہیں، غیر معمولی گرمی، شدید بارشیں، سیلاب، خشک سالی اور موسمی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے 2022 کے سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2022 میں پاکستان نے ایک سنگین سیلاب کا سامنا کیا، اس سیلاب کی وجہ سے 30 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا نقصان اٹھانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ 2022 کے سیلاب میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا تھا، جو پوری دنیا کے الیے الارمنگ کال ہے، تاہم کاربن کے اخراج کا سلسلہ جاری ہے۔
محمد یحییٰ نے کہا کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے، دنیا کے 20 امیر ترین ممالک کا کاربن کے اخراج میں 80 فیصد حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خطے کے دیگر ممالک خاص طور پر پاکستان کا کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود وہ متاثرہ ترین ممالک میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اکثر موسمیاتی ناانصافیوں کے حوالے سے سنتے ہیں لیکن اس ملک کی کئی کمیونٹیز اس حقیقت کا سامنا کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے نمائندے نے ’کوپ29‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو 30 ارب دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، تاہم ماضی کی وعدہ خلافیوں کے بعد ہم دیکھیں گے کہ اس مرتبہ کیا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے لیے ایک معقول بجٹ کا تقاضا کرتے ہیں، جب کہ ماحولیاتی آلودگی بھی اب ختم ہونی چاہیے، ہمیں موسمیاتی فنانس کا مطالبہ کرنا چاہیے جو معقول، قابل رسائی، مناسب اور منصفانہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ اور قومی استثنیٰ کا دور بھی ختم ہونا چاہیے، ہمارے سیکریٹری جنرل نے آلودگی پھیلانے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس حل کا حصہ بننے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
300 ارب ڈالر کی رقم کا بیشتر حصہ قرض ہے، ڈائریکٹر ورلڈ بینک
عالمی بینک میں موسمیاتی تبدیلی کی عالمی ڈائریکٹر ویلری ہکی نے کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ مرجائیں گے، اگر ہم اس بات کا انتظار کریں گے کہ گلوبل نارتھ کی جانب سےوہ تمام رقم رکھی جائے، جو انہیں اخلاقی طور پر دینی چاہیے۔
پیرس معاہدے کے تحت ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی پر این سی کیو جی کے ساتھ آنے میں بہت خوش ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 100 ارب ڈالر سے 300 ارب ڈالر تک منتقل ہونے ہیں، یہ بہت خطیر رقم لگتی ہے، تاہم ایسا نہیں ہے، اس کا زیادہ تر حصہ قرض پر مشتمل ہے، یہ گرانٹ نہیں ہے، اس میں سے زیادہ تر پہلے سے ہی موجود ہے، یہ اضافی نہیں ہے۔
آخر میں ویلری ہکی کا کہنا تھا کہ میں تجویز کرتی ہوں کہ اس کانفرنس کا نام ’بریتھ پاکستان‘ سے تبدیل کر کے ’لیڈ پاکستان‘ کیا جائے۔
خیبرپختونخوا پاکستان کا کاربن سنک ہے، علی امین گنڈاپور
تقریب سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خیبر پختونخوا کے حوالے سے دہشت گردی کے بارے میں ضرور سنا ہوگا، لیکن آج میں یہاں اپنے صوبے اور ہمارے لوگوں کی جانب سے ملک کے لیے دی جانے والی خدمات کو پیش کرنے کے لیے آیا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کے پی کی 37 فیصد زمین جنگلات پر مشتمل ہے، اور یہ پاکستان کے جنگلات کا 40 سے 45 فیصد ہے، کاربن سنک کے طور پر پاکستان سے 50 فیصد کاربن نکال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک کی تحقیق کے مطابق اتنے جنگلات کے لیے ہمیں سالانہ کم از کم 332 ارب روپے درکار ہیں، میں اتنا پیسہ لگانے کے قابل نہیں ہوں، لیکن کم از کم میرا صوبہ اور میرے لوگ اتنی بڑی رقم کا کام کرنے کے قابل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لیڈرعمران خان نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کی حمایت کی ہے، 2017 سے اب تک ہم نے اپنے جنگلات کے رقبے کو بہتر بنانے اور بڑھانے کے لیے خیبر پختونخوا میں 67 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔
اس حوالے سے بین الاقوامی معیار 25 فیصد ہے، لیکن (خیبر پختونخوا) اب 26 فیصد خرچ پر ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم نے بین الاقوامی معیارات حاصل کر لیے ہیں، اور اس سے بالاتر ہیں۔
آبادی پر قابو پانا، آبادی کا انتظام بڑے چیلنجز ہیں، محمد اورنگزیب
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’جہاں تک پاکستان کی پائیداری اور ہماری مجموعی معاشی صورتحال کا تعلق ہے، تو اس کا انحصار 2 مسائل اور اس بات پر ہوگا کہ ہم ان سے کیسے نمٹتے ہیں۔
انہوں نے دونوں مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ایک آبادی پر قابو پانا اور آبادی کا انتظام ہے، جب کہ بدقسمتی سے ہم اب بھی 2.5 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ’کیا اور کیوں‘ جانتے ہیں، اس حوالے سے پالیسیز کی کمی نہیں ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ اس پر عمل در آمد کیسے اور کون کرےگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ ہمیں ان مسائل کو حل کرنے اور ان سے نمٹنے کی ضرورت ہے، تاہم اصل اور سب سے بڑا مسئلہ موسمیاتی موافقت ہے۔
ماحولیات کی فنانسنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کوپ 29 میں کسی حد تک اس حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں، جس میں کم از کم 72 کروڑ ڈالر کے نقصان کے ازالے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ طویل غور و خوض کے بعد باکو فنانس کا ہدف تقریباً 300 ارب ڈالر سالانہ اخراجات کے حوالے سے ہے۔
انہوں نے گزشتہ سال باکو میں منعقد ہونے والی کوپ 29 میں طے کیے گئے فنڈز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جتنی رقم مختص کی گئی، ضرورت اس سے 3، 4 گنا زیادہ رقم کی تھی۔
پاکستان کو 2050 تک سالانہ 50 ارب ڈالر درکار ہونگے، شمشاد اختر
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سابق گورنر شمشاد اختر نے کلائمیٹ فنانس کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا ’جنون‘ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کے لیے 2050 تک سالانہ 40 سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جب تک ہم عالمی برادری اور عالمی منظرنامے کو درپیش اس مہلک خطرے سے نہیں نمٹیں گے، ہم کہیں بھی نہیں جا پائیں گے، اور ہمیں معاشی خلل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واحد حقیقت نجی سرمایہ کاری ہے، سلیم رضا
اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر سلیم رضا نے اپنے خطاب میں بتایا کہ کس طرح اخراج کی حد کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں اس میں کمی کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اور اگر یہ کمپنیاں اس پر قابو پالیتی ہیں، تو انہیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، یا وہ کسی ایسے شخص سے کریڈٹ خریدتے ہیں، جو اس خلا کے نیچے ہے، اور یہ کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ ہے۔
اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر سلیم رضا نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ میں ایک واحد حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ توقع ہے کہ نجی سرمایہ کاری اور صرف نجی سرمایہ کاری، سرکاری سرمایہ کاری ہرگز نہیں، کیوں کہ یہ پہلے ہی بوجھ تلے دبی ہے۔
اس کے بعد انہوں نے اسکرین پر ایک تخمینہ دکھایا کہ آج کے مقابلے میں اگلے 5 سال میں نجی سرمایہ کاری میں کتنا اضافہ ہونا ہے، یہ بیرونی فنانس میں 15 سے 18 گنا اور اندرون ملک جمع کی گئی رقم میں 5 سے 7 گنا تک ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کمپلائنس ٹریڈنگ مارکیٹ تقریباً 800 ارب ڈالر ہے، یہ سب نجی سرگرمی ہے، یہ کمپلائنس مارکیٹ ہے۔
سلیم رضا نے مزید کہا کہ رضاکارانہ ٹریڈنگ مارکیٹ ہے، جو ایک باقاعدہ مارکیٹ نہیں ہے، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو کاربن کریڈٹ خریدنا چاہتے ہیں، تاکہ جب وہ اپنے ممالک سے باہر جاتے ہیں تو اپنی اضافی رقم کو پورا کریں۔
ان کا کہنا تھا دنیا کا ایک بڑا حصہ ان ضروریات کا احاطہ کرتا ہے، تمام یورپی یونین، کینیڈا، چین، جاپان، نیوزی لینڈ، امریکا کے کچھ حصے (کیلیفورنیا، شمال مشرقی امریکا کی 11 ریاستیں) سبھی میں کیپ اور تجارت کا یہ نظام موجود ہے۔
محض پیسہ کافی نہیں ہے، ویلری ہکی
عالمی بینک میں موسمیاتی تبدیلی کی ڈائریکٹر ویلری ہکی نے ’پاکستان کو کلائمیٹ فنانس کی اہم ضرورت‘ کے سیشن سے خطاب کیا۔
ویلری ہکی نے ماحولیات کی فنڈنگ کے مسئلے پر بات کرنے سے پہلے مقررین کی بصیرت کو شاندار قرار دیتے ہوئے ان کے موقف کی ستائش کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم پیسے کے بارے میں بات کر رہے ہیں، چاہے وہ گھریلو یا عوامی بجٹ ہو، نجی مالیات ہو، یا بین الاقوامی پبلک فنانس، سچ یہ ہے کہ یہ سب کافی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ کلائمیٹ فنانس کے ساتھ بھی ہم نے اسے بہتر نہیں بنایا ہے، ماحولیات کی مالی اعانت کا 70 فیصد تخفیف اخراج کے لیے جاتا ہے ، لیکن آج ہم نے سنا ہے کہ تخفیف اخراج واقعی مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ ماحولیاتی موافقت کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام ماحولیاتی مالیات میں سے 20 فیصد سے بھی کم گلوبل ساؤتھ کو جاتا ہے، جہاں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات حقیقی ہیں۔
صحت اور زراعت کے چیلنجز اہم ہوں گے، علی چیمہ
لمز کے وائس چانسلر علی چیمہ نے ’2047 میں پاکستان کی 100 ویں سالگرہ منانے: ماحولیات کی لچک اور ماحولیاتی انصاف کے لیے ایک وژن‘ کے عنوان سے سیشن کی صدارت کی۔
اسکرین پر دکھائے گئے گراف اور اعداد و شمار کے ساتھ، علی چیمہ نے ماحولیات کے بحران کے تاریخی ارتقا کے بارے میں بات کی، انہوں نے کہا کہ ایک گراف غربت میں زندگی بسر کرنے والی عالمی آبادی کے تناسب کو ظاہر کرتا ہے، صنعتی انقلاب کے بعد اس تناسب میں کمی آنا شروع ہوئی۔
وائس چانسلر لمز نے گزشتہ دہائیوں کے دوران پاکستان میں درجہ حرارت میں اضافے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے کہ 2050 تک درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جائے گا۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ابتدائی صنعتکاروں کو اس طرح کے چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، 2 مزید چیلنجز بھی ہیں، جن کا تعلق صحت عامہ اور زراعت سے ہے۔
علی چیمہ نے ایک اور گراف کی وضاحت کرتے ہوئے،جس میں اوسط درجہ حرارت میں اضافے کے خلاف کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، کہا کہ جیسے جیسے ابتدائی صنعت کاروں نے پھلنا پھولنا شروع کیا، انہیں انسانی ساختہ عالمی ماحولیاتی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے وہ ماحولیات کے چیلنج کے بغیر صنعت کاری اور ترقی پر زور دے سکتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کی کوئی سرحد نہیں ہے، یہ ہر سطح تک جاتی ہے، شیری رحمٰن
سینیٹر شیری رحمٰن نے کانفرنس کے چوتھے سیشن میں اپنے میں خطاب میں 2047 کے لیے پاکستان کے وژن کے بارے میں بات کی۔
کانفرنس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگر وراثتی میڈیا آب و ہوا اور ماحولیاتی مسائل کو گفتگو کا مرکزی حصہ بنانے کی کوشش کرتا ہے، تو ہم آدھے راستے پر ہیں۔‘
وزیر توانائی اویس لغاری کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کا انرجی مکس اب 55 فیصد قابل تجدید ہے، یہ ایک بڑا بیان ہے، میں اس پر بات کر سکتی ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ میڈیا کو ہم سب سے تکلیف دہ سوالات کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ورلڈ اکنامک فورم کی بات چیت کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ’مزاحمت‘ کیوں ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی کوئی سرحد نہیں ہے، چاہے آپ کو پسند ہو یا نہیں، موسمیاتی تبدیلی عالمی سطح سے مقامی سطح تک جاتی ہے اور یہ کوئی سرحد نہیں جانتی۔’
موسمیاتی تبدیلی کی سابق وزیر نے یاد دلایا کہ 2022 کے مون سون کے سیلاب کے بعد بھی انہوں نے یہی انتباہ کیا تھا۔
لاس اینجلس کے جنگل میں لگنے والی حالیہ آگ کا ذکر کرتے ہوئے، جس نے بین الاقوامی میڈیا میں بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کی، انہوں نے کہا کہ ’لیکن دو سال قبل بلوچستان میں لگنے والی اسی طرح کی آگ کے بارے میں آپ نے زیادہ نہیں سنا ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس آگ نے ہزاروں ایکڑ پر پھیلے پائن کون کے جنگلات کو جلا دیا، یہ ہر جگہ اور تمام جگہوں پر ایک ہی وقت میں ہے۔‘
شیری رحمٰن نے خبردار کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے ’انکار‘ ایک بار پھر نظر آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں موسمیاتی تبدیلی سے انکار واپس آ رہا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس ایک علمی تکبر ہے کہ یہ ہمارے ساتھ نہیں ہونے والا ہے، یہ شاید پھر نہیں ہوگا کیونکہ ہم واقعی ذمہ دار نہیں ہیں، تو پھر کون ذمہ داری لے گا؟‘
سابق وفاقی وزیر نے ’پاکستان کی راہ میں حائل تین وسیع مسائل‘ کی نشاندہی کی جس میں موسمیاتی تبدیلی کو ایک بیرونی مسئلے کے طور پر دیکھنا بھی شامل ہے۔
’وزیراعلیٰ پنجاب چاہتی ہیں اسموگ پر بھارت سمیت دیگر ممالک کی کانفرنس ہو‘
پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے حال ہی میں اپنے صوبے کو درپیش اسموگ کے بحران پر بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 4،5 سالوں سے لاہور میں اسموگ کا مسئلہ تھا، اسموگ سے صرف لاہور نہیں بلکہ ملک اور خطے کے دیگر حصے بھی متاثر ہوئے تاہم اب اس کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ماس ٹرانزٹ کو روایتی ایندھن سے الیکٹرک پر منتقل کیا جارہا ہے، صوبے بھر میں پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی عائد ہے اور تمام ادارے پلاسٹک کے تھیلوں سے متلعق متحرک ہیں۔
سینئر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ کاشتکاروں کو باقیات جلانے سے روکنے کے لیے سپرسیڈر دیے گئے، فصلوں کی باقیات کے استعمال کے لیے بایوریفائنری بھی متعارف کرارہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب چاہتی ہیں اسموگ پر بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کی کانفرنس ہو۔
اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر نے علاقائی فضائی معیار کے فریم ورک کی ضرورت پر زور دیا۔
افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی اندریکا رتوٹے نے مریم اورنگزیب کے خدشات دہراتے ہوئے فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے بین السرحدی سطح کے حل کی ضرورت پر بھی بات کی۔
انہوں نے علاقائی فضائی معیار کا فریم ورک قائم کرنے، سرحد پار نگرانی اور ڈیٹا شیئرنگ، فضائی معیار کی ہم آہنگی، مربوط پالیسی ایکشن سمیت متبادل اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار نے موسمیاتی تبدیلی سے زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں متنبہ کیا
پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کی نائب نمائندہ ایلن نے صحت پر فضائی آلودگی کے اثرات کے بارے میں بات کی۔
عالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ 2030 سے 2050 کے درمیان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں غذائی قلت، ملیریا، ڈائریا اور گرمی کے دباؤ کی وجہ سے سالانہ ڈھائی لاکھ اضافی افراد متاثر ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فضائی آلودگی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے موسمیاتی تبدیلی کے موضوع سے الگ کیا جانا چاہئے۔
غیر منافع بخش تنظیم سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ انڈیا کی ڈائریکٹر جنرل سنیتا نارائن نے فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے مقامی حل کی ضرورت کی تجویز پیش کی۔
ان کا کہنا تھا ’ہمارے شہروں میں فضائی آلودگی کا مسئلہ اس وقت تک بڑھتا رہے گا جب تک کہ ہم ٹریفک، ہجوم، فیکٹریوں میں کوئلے جلانے اور کچرے کا مقامی حل تلاش نہیں کرتے‘۔
سنیتا نارائن نے مزید کہا کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ہمارا چیلنج ہے اور چیزوں کو مختلف طریقے سے کرنے کا ایک موقع بھی ہے۔
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد قیوم نے معیشتوں کی کاربنائزیشن اور موسمیاتی تبدیلی پر فوسل فیول کے استعمال کے اثرات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ امریکا سمیت بہت سے ترقی یافتہ ممالک کاربنائزیشن سے کترا رہے ہیں۔
اس کے بعد انہوں نے شرکا سے سوال کیا کہ تمام ممالک کو ملینیم ڈیولپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) یعنی اقتصادی خوشحالی اور ماحولیاتی تحفظ کو متوازن کرنے کے چیلنج سے کیسے نمٹنا چاہیے۔
فوسل فیول عدم پھیلاؤ معاہدے کے اقدام کے لیے گلوبل انگیجمنٹ ڈائریکٹر ہرجیت سنگھ نے عابد قیوم کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا ’گزشتہ چند سالوں میں ہماری سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور اب یہ ماحولیات بمقابلہ ترقی نہیں ہے، کم از کم تصوراتی سطح پر ہم نے اسے حل کر لیا ہے۔
تاہم زمینی سطح پر اب بھی بہت سے چیلنجز موجود ہیں اور یہی سے ہمیں اس بیانیے سے عمل درآمد کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے جب کہ یہی وجہ ہے کہ ہم لینیم ڈویلپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) سے ایس ڈی جیز (پائیدار ترقیاتی اہداف) کی طرف منتقل ہوئے، جہاں توجہ پائیداری پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ترقیاتی سرگرمی پائیدار نہیں ہوسکتی اگر اسے ماحولیات اور فطرت کے نقصان کی قیمت پر کیا جائے۔