کسی کو بھی پارلیمنٹ کے خلاف بیان دینے کا حق حاصل نہیں، اسپیکر قومی اسمبلی
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے جج کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی پارلیمنٹ کے خلاف بیان دینے کا حق حاصل نہیں، پارلیمنٹ کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا ئے گا۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے آج ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ تبصرہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایک معزز جج کی جانب سے عدلیہ، انتظامیہ اور پارلیمنٹ سے متعلق ریمارکس پر دیا گیا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی پارلیمنٹ کی عزت کو مجروح کرنے کا حق حاصل نہیں۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انتظامیہ اور عدلیہ دونوں ریاست کے اہم ستون ہیں، اور اس قسم کے بیانات پارلیمنٹ پر حملے کے مترادف ہیں جو کسی طور قابل قبول نہیں۔
اسپیکر ایاز صادق نے پارلیمنٹ کی عظمت اور وقار کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جج صاحب کو یہ مسیج پہنچا دیں کہ پارلیمنٹ کو یہ کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہے، مزید کہنا تھا کہ یہ ڈرامہ 2014 میں بھی ہوا تھا، جو کہتے تھے کہ جعلی پارلیمنٹ ہے، جب 2018 کی پارلیمنٹ آئی تو وہ جعلی نہیں تھی، لیکن 2013 کی بھی جعلی تھی اور 2024 کی بھی، ایاز صادق کا کہنا تھا کہ اس طرح سسٹم نہیں چلتا۔
اجلاس کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے ایک اہم رولنگ دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ اصولی مؤقف ہے، وقفہ سوالات کے دوران کسی بھی کو پوائنٹ آف آرڈر بات اجازت نہیں، ان کا کہنا تھا کہ آج کا پرائیویٹ ممبر ڈے تھا اس لیے قائد حزب اختلاف کو پوائنٹ آف آرڈر بات کا موقع دیا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کو آگاہ کیا کہ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی نامزدگی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے اراکین کی نامزدگی کے حوالے سے حکومتی اور اپوزیشن کو باضابطہ خطوط ارسال کردیے ہیں۔
واضح رہے کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے تھے کہ عدلیہ، پارلیمنٹ، ایگزیکٹو سب زوال پذیر ہیں، اب امیدیں صرف نوجوان نسل سے ہیں۔
سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے تھے کہ پاکستان میں رہنا مستقل لڑائی ہے، 24 سے 25 کروڑ لوگ ہیں، لڑائی کرنے والے زیادہ اور بچنے والے کم ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ مجھ سمیت 45 سال سے زائد عمر کے لوگ ناکارہ ہیں، نوجوانوں نے ہی اس ملک کے لیے کچھ کرنا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ عدلیہ، پارلیمنٹ، ایگزیکٹو سب زوال پذیر ہوچکے ہیں، اب امیدیں صرف نوجوان نسل سے ہیں۔